بعد از توسیع قانون سازی کی گرد ابھی نہیں بیٹھی۔ پورے سیاسی نظام پر پس لرزہ اثرات نہ صرف موجود ہیں بلکہ مستقبل کے سیاسی نقشے کی تشکیل پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں حکومتی نظرثانی درخواست ابھی تک نمٹائی نہیں گئی اور کچھ متفرق درخواستیں ابھی بھی موجود ہیں لیکن اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ معاملہ اب نمٹ چکا ہے کیونکہ زیادہ تر سیاسی قوتیں اسے بوجوہ قبول کر چکی ہیں، لیکن بحران ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ان حالات میں یا تو عمومی بہتری آئے یا نئی تبدیلی اپنے دروازے کھول دے۔ بہتری کے کم اور بدتری کے آثار نمایاں ہیں اس لیے تبدیلی ناگزیر لگتی ہے۔
آبادی کے حساب سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے حالاتِ حکمرانی مسلسل دگرگونی کا شکار ہیں۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں یہ باتیں مشہور ہو رہی ہیں کہ نوکرشاہی وزیر اعظم کی صوابدید پر حکومت چلا رہی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ صوبے میں عملاً گورنر راج نافذ ہے، یعنی عمران خان نے اس وقت وزیراعظم کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ کی ٹوپی بھی پہن رکھی ہے۔
ایسے مرکزیت پسند نظام میں نہ صرف صوبائی وزرا بیگانگت کا شکار ہیں بلکہ حکومتی ارکان صوبائی اسمبلی ان سے بھی زیادہ ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ حکومتی اتحادی ق لیگ زیادہ غصہ دکھا رہی ہے۔ اس لیے صوبائی حکومت جو ’آزادوں‘ اور ق لیگ کے سہارے کھڑی کی گئی تھی، لڑکھڑاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
وفاق میں معاملات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اراکین کی طرف سے وفاقی وزرا کی کارکردگی اور مبینہ کرپشن کے الزامات آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اتحادیوں کے معاملات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اتحادی جماعتیں اب اختلافات کا کھل کر اظہار کر رہی ہیں۔
ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کابینہ سے الگ ہو چکے ہیں جبکہ جی ڈی اے، ق لیگ، بی این پی مینگل بھی کل پرزے نکال رہے ہیں۔ یہ تلاطم ایسے وقت میں سامنے آرہا ہے جب حکومت نے بڑی آسانی سے افواج سے متعلق قانون سازی غیر معمولی آسانی سے منظور کرا لی ہے۔ اس کے بعد تو حکومت کو پراعتماد نظر آنا چاہیے تھا اور حزب اختلاف کے ساتھ اس کے تعلقات بھی خوش گوار ہونے چاہیے تھے، لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حقیقت یہ ہے کہ ایک صفحے کے بیانیے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت مقتدر حلقوں کے لیے اثاثے کی بجائے بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی، خراب حکمرانی اور خارجہ پالیسی میں پے درپے ناکامیاں ایک صفحہ پکڑنے والوں کی انگلیوں کو جلانے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان حالیہ قانون سازی کے بعد خوشی کی بجائے مایوسی کا اظہار کرنے لگے ہیں اور انھیں اب سکون صرف قبر میں ہی نظر آنے لگا ہے۔
قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے توسیع معاملے پر قانون سازی کے بعد وزیر اعظم حزب اختلاف کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے تھے اور سینیٹ میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔
اس غیر معمولی واقعے کے بعد حزب اختلاف کے خلاف کارروائیوں میں کمی کے بجائے تیزی آئی ہے۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف نئے ریفرنس داخل کیے گئے ہیں، مریم نواز شریف جن کا نام پہلے ہی ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہے، کابینہ نے ان کا نام دوبارہ اس لسٹ پر ڈالا ہے اور میاں جاوید لطیف کا نام بھی اس لسٹ میں ڈالا گیا ہے۔ رہی سہی کسر عمران خان کے لاڈلے وزیر فیصل واوڈا نے پوری کردی۔
باوجود اس بات کے کہ عمران خان نے مبینہ طور پر فیصل واوڈا کے ’بوٹ تماشے‘ کے بعد ان پر دو ہفتوں کے لیے ٹی وی ٹاک شوز میں شمولیت پر پابندی عائد کر دی ہے، عمران خان کا اپنا طرز عمل فیصل واوڈا کے تماشے کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔ واوڈا گینگ کو غصہ اور خوف اس بات کا ہے کہ ایک صفحے پر اب صرف ان کی جماعت نہیں بلکہ حزب اختلاف بھی کندھے رگڑ کر شامل ہوگئی ہے۔ غصہ نئے ’شریکوں‘ کی آمد کا ہے اور خوف یہ ہے کہ کہیں پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان اس صفحے سے بے دخل نہ ہوجائیں۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ اکثر جماعتوں کے اندر جمہوریت نام کا جانور موجود نہیں۔ حالیہ قانون سازی کے دوران یہ بات زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے کھل کر کہا کہ ان کی جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ حالیہ قانون سازی کے خلاف تھی لیکن پھر آخری وقت میں ان پر ایک فیصلہ تھوپا گیا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ بلاول بھٹو زرداری رائے شماری کے وقت قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔
یہی صورت حال ن لیگ کی ہے جہاں پر کئی قائدین نے کھل کر حالیہ فیصلے کے خلاف بات کی۔ سب سے نمایاں نام سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا ہے۔ ان جماعتوں میں موجود بےاطمینانی یقینی طور پر مسقبل کی سیاسی صف بندی پر اثرانداز ہو گی۔ اس وقت نواز شریف خاموش ہیں۔ ان کی بیٹی مریم نواز بھی خاموش ہیں لیکن یہ خاموشی زیادہ عرصے تک برقرار نہیں رہ سکے گی۔
اس وقت سب سے بڑی پریشانی معاشی بدحالی ہے۔ ایف بی آر اپنے ہدف میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے اور اب خبریں حفیظ شیخ اور شبر زیدی میں اختلافات کی زوروں پر ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق پی ٹی آئی حکومت اپنے دور حکومت میں گردشی قرضے میں اب تک 565 ارب روپے کا اضافہ کر چکی ہے جو کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے بالکل برعکس ہے۔ صرف پچھلے چھ ماہ میں گردشی قرضوں میں اضافہ 100 ارب روپے سے زیادہ ہے۔
افراط زر، اشیائے خورد و نوش میں ہوشربا اضافہ، بجلی اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں بار بار کئی گنا اضافہ، پٹرول پر عائد ٹیکس اور لیوی میں مسلسل اضافہ، صنعتی پیداوار میں تیزی سے گراوٹ، زراعت کے مختلف شعبوں میں تباہی کے آثار اب ہر ایک پر واضح ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی ریسرچ اور کنسلٹنگ فرم اپسوس کے جمعرات کو جاری کیے گئے سروے نے پاکستان میں بے روزگاری کے حوالے سے پریشان کن اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔
اس سروے کے مطابق 83 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ان کی ملازمتیں خطرے سے دوچار ہیں جبکہ 31 فیصد کے مطابق وہ خود یا ان سے منسلک افراد پہلے ہی بے روزگار ہو چکے ہیں۔ سروے کے مطابق صرف 17 فیصد پاکستانیوں کے خیال میں ان کی ملازمتیں محفوظ ہیں۔
یہ وہ صورتحال ہے جو بہت سے فیصلہ سازوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہے۔ ایسی صورتحال میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو دیوار سے لگانے اور رسوا کرنے سے نہ سیاسی ماحول میں بہتری آسکتی ہے اور نہ معاشی اور کاروباری ماحول میں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اتحادی بھی اب آئے روز حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور یہی سیاسی عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے۔
عمران حکومت اپنی اصلاح کرے، اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ باتیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ اگر عمران سرکار کے خلاف عدم اعتماد کی صورتحال پیدا ہوئی تو عمران خان اسمبلیاں توڑ سکتے ہیں۔ لیکن کیا مقتدر حلقے مستقبل کی پیش بندی کیے بغیر انھیں کوئی مہم جوئی کرنے دیں گے، اس کا واضح جواب ابھی موجود نہیں۔
فوری طور پر اگر اندرون ایوان تبدیلی آتی ہے تو اسلام آباد میں شہباز شریف اور لاہور میں چوہدری پرویز الہٰی کے براجماں ہونے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔