رواں برس 26 فروری کو خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ کے قصبے جابہ میں فضائی کارروائی کے بعد بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مذہبی تنظیم جیش محمد کے تربیتی ٹھکانے کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ کئی ’دہشت گردوں‘ کو بھی ہلاک کردیا ہے، تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے اس بات کی تردید کردی گئی تھی۔
اس سارے معاملے پر حکومت کا واضح موقف سامنے آیا تھا کہ جس مقام پر بھارت نے فضائی کارروائی کی، وہاں دہشت گردوں کا کسی قسم کا ٹھکانہ موجود نہیں تھا، تاہم حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر جیش محمد کے زیرِ سایہ چلنے والے مدرسے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔
دوسری جانب مقامی ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس علاقے میں ایک مدرسے کی موجودگی کی تصدیق کی تھی، جس کا نام ’مدرسہ تعلیم القرآن‘ ہے۔
جابہ گاؤں کے ایک رہائشی نے معاملے کی حساسیت کے پیشِ نظر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ جس مقام پر بھارتی بم گرے وہاں سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مدرسہ واقع تھا، جسے مبینہ طور پر جہادی چلا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں چند سال قبل خود اس مدرسے کے اندر جانے کا موقع ملا ہے اور انہوں نے وہاں بنکر بھی دیکھے ہیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ بظاہر یہ مدرسہ ہوائی حملے کے لیے تیار تھا۔
ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ یہ مدرسہ چند مہینے پہلے کسی اور جگہ پر منتقل یا ختم کر دیا گیا ہے، تاہم اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی لیکن مقامی ذرائع نے یہ تصدیق ضرور کی تھی کہ مدرسے کی عمارت ابھی بھی قائم ہے۔
دوسری جانب یہ بھی واضح نہیں ہو سکا تھا کہ آیا یہ مدرسہ/ تربیتی کیمپ اُس وقت فعال تھا یا نہیں۔
بھارتی طیاروں کی جانب سے گرائے گئے بم جابہ کے ایک اور رہائشی ریاض شاہ کی ملکیتی زمین پر گرے تھے۔ جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے بات کی تو انہوں نے بتایا تھا کہ ’یہاں کسی مدرسے کی موجودگی کے بارے میں میرے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘
اور اب حملے کے چند ہفتوں بعد گزشتہ روز پاکستان فوج نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے چند صحافیوں کو اس علاقے کا دورہ کروایا اور بتایا کہ یہاں ایک مدرسہ ضرور موجود ہے، لیکن اس کا جیش سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دورے میں دس سے زائد ممالک کے دفاعی اتاشی بھی شامل تھے۔
فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا سے بات چیت میں قطعی طور پر اس خیال کو رد کیا کہ اس مدرسے کا جیش محمد سے کوئی تعلق ہے، ان کا کہنا تھا: ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مدرسے کی ایک معمولی سی بوسیدہ عمارت ہے لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا اور آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ بھارتی دعووں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔‘
میجر جنرل آصف غفور کا مزید کہنا تھا: ’یہ مدرسہ ہمیشہ سے یہیں ہے اور یہاں ہر کسی کو آنے جانے کی اجازت ہے۔‘
جس وقت بھارت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا، اُس وقت اس مدرسے کی ایک تصویر بھی آن لائن گردش کر رہی تھی، جس میں مدرسے کے نام کے نیچے ایک طرف لکھا ہے، ’زیرِ سرپرستی مولانا مسعود ازھر،‘ جبکہ دوسری طرف تحریر تھا: ’زیرِ نگرانی محترم جناب یوسف اظہر صاحب۔‘ قابلِ غور بات یہ ہے کہ مسعود ازہر اور یوسف اظہر کے ناموں کے ہجوں میں فرق ہے۔
میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق مسعود ازہر جیشِ محمد کے سربراہ اور یوسف اظہر ان کے داماد ہیں جنہوں نے 1999 میں ایئر انڈیا کی پرواز کو اغوا کر کے اپنے سسر کی بھارتی جیل سے رہائی میں کردار ادا کیا تھا۔
جابہ کے اس مدرسے کی کارروائیوں کے بارے میں کچھ تفصیل جیشِ محمد کے ہفت روزہ رسالے ’القلم‘ سے ملتی ہے۔ اس رسالے کے 2018 میں شائع ہونے والے شمارہ نمبر 438 میں ایک خبر موجود ہے جس میں مدرسہ تعلیم القرآن میں ہونے والی ایک تقریب کا احوال تحریر کیا گیا ہے۔
اس احوال میں درج ہے کہ اس مدرسے کے مہتمم ’استاذ المجاہدین‘ محمد یوسف غوری ہیں اور اس تقریب کو اس مدرسے کے سالانہ اجتماع کا نام دیا گیا ہے جو گذشتہ سال مئی میں منعقد کیا گیا تھا۔
خبر کے مطابق ایک مہمان مولانا مفتی محمد اصغر کشمیری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بچوں کو جہاد کی اہمیت اور جہاد کے خلاف پھیلائے جانے والے بعض مشہور وسوسوں کو رد کیا۔
نو اپریل 2017 کو اس مدرسے میں ایک اور تقریب منعقد کی گئی اور اس کی خبر ’القلم‘ کے شمارہ نمبر 589 میں درج ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ یہ تقریب مدرسے کے 11 حفاظ کو اسناد دینے کے لیے منقعد کی گئی تھی۔
خبر کے مطابق تقریب سے مہمان خصوصی مفتی عبد الرؤف اصغر نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ مدرسہ سید احمد شہید کے قافلے کے جانشینوں کا ہے اور اس مدرسے کے جانبازوں نے شہدائے بالاکوٹ کے خون کی لاج رکھی ہے۔‘