برطانیہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ نے حزب اللہ کی پوری تنظیم کو دہشت گردی کی بلیک لسٹ میں ڈال دیا ہے اور اس کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔
ایچ ایم ٹریثری اس سے پہلے بھی حزب اللہ کے عسکری ونگ پر پابندیاں عائد کر چکی ہے لیکن نئی پابندیوں کے تحت حزب اللہ کی تمام تنظیمیں اور ادارے ٹیررسٹ ایسٹ فریزنگ ایکٹ 2020 کے تحت منجمد کر دیے گئے ہیں۔
محکمہ خزانہ کی ویب سائٹ پر کہا گیا کہ حزب اللہ ’عوامی طور پر اپنے عسکری اور سیاسی ونگز کے درمیان فرق کو رد کر چکی ہے۔ حزب اللہ کو مارچ 2019 میں برطانیہ میں دہشت گرد اور کالعدم تنظیم قرار دیا گیا تھا۔ اس فہرست میں حزب اللہ کا عسکری ونگ، جہاد کونسل اور اس کے تمام یونٹس جب کہ بیرونی سیکورٹی تنظیم بھی شامل تھی۔‘
HM Treasury has designated the entire organisation of Hizballah under the Terrorist Asset-Freezing Act 2010. This asset freeze aligns with the decision made last year by the Chancellor - when Home Secretary – to proscribe the entire organisationhttps://t.co/CcdituHV03
— HM Treasury (@hmtreasury) January 17, 2020
یہ پابندیاں ایسے وقت میں عائد کی گئی ہیں جب لبنان میں نئی حکومت کے قیام کے حوالے سے بحث جاری ہے اور جس میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے گروپ سے تعلق رکھنے والے 18 وزرا شامل ہو سکتے ہیں۔
لبنان کی تین بڑی جماعتیں دی فیوچر موومنٹ، دی پروگریسو سوشلسٹ پارٹی اور لبنانی فورسز نامی سیاسی جماعت نئی حکومت کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔
سابق وزیر اعظم نجیب میکاتی کا کہنا ہے کہ ’وہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ٹیکنوکریٹ اور ماہرین کے ساتھ حکومت بنا سکتے ہیں جب ان کے درمیان شراکت داری اور وزارتوں پر کھلے اختلاف ہیں جیسے کہ ہم ایک معمولی صورت حال میں رہ رہے ہیں اور ملک میں کوئی بحران یا سڑکوں پر احتجاج نہیں ہو رہا۔‘
لبنان میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کے باعث ہونے والے مظاہروں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سابق وزیر اعظم سعد حریری کی حکومت نے ٹیکس کی شرح میں اضافے اور کرپشن کے خلاف ہونے والے پرامن مظاہروں کے بعد 29 اکتوبر کو استعفی دے دیا تھا۔
نامزد وزیر اعظم حسن دیاب کو گذشتہ ماہ حکومت بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور امید کی جا رہی تھی کہ اس ہفتے کے اختتام تک حکومت تشکیل پا جائے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حریری سیاسی مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے حوالے سے کافی آواز اٹھا رہے ہیں۔ جمعران کو ان کا کہنا تھا کہ ان کی سیاست کی مخالفت کرنے والے ہی ملک کو اس ’بحرانی صورت حال‘ تک لانے کے ذمہ دار ہیں۔
حزب اللہ ماضی میں کہہ چکی ہے کہ وہ چاہتی ہے سعد حریری حکومت قائم کریں لیکن حال ہی میں حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نعیم قاسم سابقہ حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق سابقہ حکومت ’مالی بے ضابطگیوں، بدعنوانی اور قانون شکنوں کے تحفظ پر مبنی تھی۔‘
ان کے مطابق انہی وجوہات نے لبنان کو اس ’سماجی اور معاشی بحران‘ کی راہ پر ڈالا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے لوگ ہمیشہ موجود ہوں گے جو کسی بھی بات سے مطمئن نہیں ہو سکتے اور ایسے جنہیں جائز تشویش ہو گی یا وہ جو سمجھیں گے کہ انہیں باہر رکھا جا رہا ہے اور وہ کوشش کریں گے کہ حکومت کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر سکیں۔‘
پیٹریاٹک موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر پیری رفاؤل نے سعد حریری پر ’نئی حکومت کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔
عوامی معاملات کے ماہر ڈاکٹر ولید فخرالدین نے جلد نئی حکومت کے قیام کے امکان کو مسترد کیا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس میں تاخیر کی وجہ خطے کی صورت حال ہے جس میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت بھی شامل ہے۔
لیکن مظاہرین کی جانب سے حکام، اداروں پر دباؤ جاری ہے اور عوام میں بینکوں کے خلاف سخت اشتعال پایا جاتا ہے۔
ایک وڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون حمرا سٹریٹ میں بینک کی کھڑکیاں توڑتے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ ان سے پوچھتی ہیں کہ ان کا تعلق کہاں سے ہے اور پھر انہیں وہاں سے جانے کا کہہ رہی ہیں۔ وہ کہتی دیکھی جا سکتی ہیں کہ ’بیروت کے شہریوں کو ڈرانے پر آپ کو شرم آنی چاہیے۔‘