جب سے بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر پر جنونی فیصلہ کیا اور پاکستان سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی ہے، برصغیر میں دو ممکنہ اہم حادثات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
امریکہ اور بیشتر ممالک کے اندرونی سفارتی حلقے اس انتشار کو روکنے کی پس پردہ کوششیں کر رہے ہیں۔
بھارت کے نئے فوجی سربراہ نے کئی بار اس دھمکی کو دہرایا ہے کہ حکومت کے کہنے پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کسی بھی وقت جنگ چھیڑی جا سکتی ہے اور دوسرا ایجنڈا یہ دہرایا جا رہا ہے کہ وادیِ کشمیر میں چین میں سنکیانگ طرز کے حراستی مراکز قائم کیے جائیں گے تاکہ وادی میں موجود آزادی کے جذبے کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاسکے حالانکہ جذبہ آزادی کو ختم کرنے کے بہت سے طریقے اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ شاید ہٹلر دور کا یہ آخری ہتھکنڈا بھی کشمیری قوم کی نصیب میں لکھا ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق بھارت کے خفیہ پالیسی اداروں میں یہ قیاس آرائیاں گشت کر رہی ہیں کہ لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ حصے پر بھارت قبضہ کرنے کی کوشش کرے گا اس پر عالمی برادری تشویش ظاہر کرکے کشمیر مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے پر زور دے گی جس پر بھارت کی ایل اوسی کو مستقل سرحد قائم کرنے کی مانگ بڑھ جائے گی اور امریکہ اور یورپ بھارتی موقف کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان پر بعض مسلم ممالک کا دباؤ ڈال کر راضی کروا لیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس طرح بھارت بعض ملکوں کی مدد سے کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے زمین بوس کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ہوسکتا ہے یہ خواب مودی سرکار دیکھ رہی ہو، مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اتنا کمزور ملک ہے کہ وہ اپنا دفاع کرنے میں ناکام ہوگا؟ بین الاقوامی سرحد قائم کرنے پر راضی ہوگا یا کیا پاکستان پر جنگ مسلط کرکے اس کی فوج تماشائی بن کر رہے گی کیونکہ یہ بنگلہ دیش کا معاملہ تو نہیں جو ہزاروں میل دور ہونے کے سبب بھارت بنگالیوں کی جنگ لڑنے میں کامیاب ہوا تھا۔
ظاہر ہے کہ ان سوالوں کے جواب پاکستان ہی دے سکتا ہے لیکن اگر بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت توسیع پسند عزائم کو لے کر عوام کو کابل سے لےکر بنگلہ دیش اور ملیشیا سے لے کر برما تک ہندو راشٹر بنانے کا خواب دکھانے لگی ہے تو اس جارحانہ سوچ کو بدلنے کے لیے مسلم ممالک کو متحد ہونے کی ضرورت ضرور آن پڑے گی۔
بھارت کا دوسرا ایجنڈا کشمیر میں حراستی مراکز قائم کرنا ہے جس کی اطلاع فوج کے چیف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت نے حال ہی میں ایک مذاکرے کے دوران دی۔
جموں و کشمیر کے پولیس سربراہ نے فوراً اس کی حمایت کی گو کہ اطلاع ہے کہ کشمیر کے جنوب میں فوج نے پہلے ہی ایسے کئی کیمپ قائم کیے ہیں جہاں معصوم بچوں کو گرفتار کرنے کے بعد ہندوستانی ذہن بنانے کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
بے پناہ طاقت اور بربریت کے باوجود کشمیریوں کا ڈی این اب تک تبدیل نہیں ہو پایا ہے۔ کشمیری اس وقت حراستی مرکز میں نہیں ہیں کیا؟ پوری آبادی کو کھلی جیل میں رکھ کر دنیا اور میڈیا سے منقطع کیا گیا ہے۔ کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے, بچے تعلیم سے محروم کردے گئے ہیں, عورتوں کو ہراساں کیا جارہا ہے, میڈیا تک کوئی رسائی نہیں ہے۔
انٹرنیٹ کو بند کردیا گیا ہے اور اب معصوم بچوں کو حراستی مراکز میں داخل کرکے سوچ بدلنے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔
بدنام زمانہ تفتیشی مراکز پاپا2, آئر کارگو ہمہمامہ میں کیا ہزاروں نوجوانوں کو ٹارچر نہیں کیا گیا تھا؟ لیکن جو جسمانی اور ذہنی اذیت سے گزر کر بچ پائے ہیں وہ پھر بھی ہندوستانی ڈی این اے لے کر باہر نہیں آئے۔ کشمیری قوم اب بھی اپنے موقف پر قائم ہے اورشاید مرتےدم تک قائم رہے گی۔
اس دوران ان بچوں میں ہندوستانیت کوٹ کوٹ کر بھر دی جاتی تھی۔ یہ بچے واپس آکر آزادی کا راگ دوبارہ آلاپ کر بھارتی ایوانوں کے لے درد سر بن جاتے ہیں۔
پھر لاکھوں طلبا کو ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں حصول تعلیم کی جانب راغب کرکے ہندوستانی بنانے کا عمل شروع کرایا گیا لیکن کرکٹ میچ کے دوران جب یہ طلبا پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر تالیاں بجاتے رہتے ہیں تو یہ فارمولا بھی کارگر ثابت نہیں ہوا۔ کشمیری قوم کی ہٹ دھرمی کوکیا کیجیے گا۔