امریکی حکومت کو پچھلے چار سالوں میں سرکاری فنڈز کے زیر انتظام مراکز میں پناہ گزین بچوں سے جنسی زیادتی کی 4500 شکایات موصول ہوئی ہیں۔
امریکی محکمہ انصاف کی رواں ہفتے جاری ہونے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی امریکہ کی جنوبی سرحد پر غیرقانونی پناہ گزین خاندانوں کو علیحدہ کرنے کی سخت پالیسی نافذ ہونے کے بعد ایسی شکایات میں اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مراکز میں زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں میں اکیلے سرحد پار کرنے والے اور والدین سے الگ کیے جانے والے بچے شامل ہیں۔
والدین کی سرپرستی سے محروم بچوں کے دیکھ بھال کرنے والے آفس آف ریفیوجی ریسیٹلمنٹ کو اکتوبر 2014 سے جولائی 2018 کے درمیان جنسی زیادتی یا ہراساں کیے جانے کی 4556 شکایات موصول ہوئیں جن میں سےانتہائی سنگین نوعیت کی 1303 شکایات داد رسی کے لیے امریکی محکمہ انصاف کو بھجوا دی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق ان 1303 شکایات میں سے 178 کا تعلق مراکز کے عملے کی جانب سے پناہ گزین بچوں سے جنسی زیادتی جبکہ باقی کا تعلق پناہ گزین بچوں کا دوسرے بچوں سے زیادتی سے ہے۔
آفس آف ریفیوجی ریسیٹلمنٹ کے عبوری ڈائریکٹر جوناتھن ایچ ہیز نے ایک بیان میں مراکز میں موجود بچوں کے تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ مراکز کا عملہ ایسے واقعات میں ملوث نہیں۔
تمام شکایات کی مکمل تحتقیقات کی گئی ہیں اور جہاں ضروری ہوا مناسب اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں ہر شکایت کی داد رسی کے لیے اٹھائے گئے اقدام کی تفصیلات درج نہیں اور بعض شکایات یا تو جھوٹی پائی گئیں یا پھر ان کے شواہد نہیں مل سکے۔
یاد رہے کہ پچھلے سال ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سےجنوبی سرحد پار کرنے والےغیر قانونی پناہ گزینوں پر سخت پابندیوں کے نتیجے میں اب تک 2700 سے زیادہ بچے اپنے والدین سے جدا ہو چکے ہیں۔
چار سالوں کا احاطہ کرنے والی اس رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسی سے پہلے ایسی اکا دکا شکایات رپورٹ ہوتی تھیں تاہم پالیسی نافذ ہونے کے ان میں تیزی سے اضافہ ہوا اور محض مارچ 2018 سے جولائی 2018 کے درمیان ایجنسی کو 859 شکایات موصول ہوئیں۔