چین کے شہر ووہان میں درجنوں ہلاکتوں اور سینکڑوں شہریوں کو متاثر کرنے کے بعد جان لیوا کرونا وائرس یورپ پہنچ گیا ہے اور فرانسیسی وزیر صحت نے ملک میں دو کرونا وائرس کے متاثرین کی تصدیق کی ہے۔
ادھر، برطانیہ میں محکمہ صحت کا عملہ ان دو ہزار افراد کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا ہے، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ حال ہی میں وسطیٰ چین کے صوبے ہیوبی کے دارالحکومت ووہان سے برطانیہ پہنچے۔
چینی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک میں کرونا وائرس میں مبتلا ہو کر اب تک کم از کم 41 افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار 287 افراد میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
فرانسیسی وزیر صحت آنئیس بیوزِن میں جمعے کو ملک نے ایشیا اور امریکہ سے باہر مہلک وائرس کے پہلے کیسز کا اعلان کرتے ہوئے زور دیا کہ یورپ کو وائرس کو وبا پھیلنے سے روکنے کے لیے کمر کسنی ہو گی اور اس کا جنگل میں لگی آگ کی طرح مقابلہ کرنا ہو گا۔
انھوں نے ملک میں کرونا وائرس کے دو کیسز کی تصدیق کی ہے۔ وائرس کا شکار دونوں افراد نے چین کا سفر کیا تھا۔
فرانس میں وائرس میں مبتلا مریضوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں انھیں الگ تھلگ رکھا جا رہا ہے۔ ان میں ایک مریض پیرس اور دوسرا جنوب مغربی شہر بوردو میں ہے۔
فرانسیسی وزیر صحت نے کہا یورپ کی جزوی طور پر کھلی سرحدوں کی وجہ سے انھیں مزید کیسز کے سامنے آنے کا خدشہ ہے۔ ’آج کی دنیا میں سرحدوں کو بند کرنا بہت مشکل ہے، یہ حقیقت میں ممکن نہیں۔‘
دی انڈپینڈنٹ سمجھتا ہے کہ برطانیہ میں کرونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق محکمہ صحت کے یہ کہنے پر ہوئی کہ وہ ان دو ہزار افراد کا سراغ لگانے کے لیے فضائی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو گذشتہ 14 دن میں ووہان سے برطانیہ پہنچے تھے۔
برطانوی محکمہ صحت کے شعبہ نیشنل انفیکشن سروس کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر نِک فِن نے کہا: ’ہم یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گذشتہ 14 دن میں ووہان سے آنے والے تمام مسافروں کے علم میں ہو کہ وائرس کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں انھیں طبی امداد کی ضرورت ہے۔‘
برطانوی محکمہ صحت کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر پال کوسفورڈ نے کہا کہ ابھی تک وائرس کے ’ابتدائی دن‘ ہیں لیکن انھوں نے اعتراف کیا کہ اس بات کا ’قومی امکان‘ ہے کہ ایک درجن سے زیادہ افراد کے ٹیسٹوں کے بعد برطانیہ میں کرونا وائرس کی نئی اقسام دیکھی جائیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمیں حیرت نہیں ہو گی کہ اگر چین سے آنے والے لوگ انفیکشن ساتھ لے کر آئیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ ان لوگوں میں سے ایک ہیں اور آپ کے جسم میں علامات ظاہر ہوتی ہیں تو آپ کو فوری طور پر رابطہ کرنا چاہیے۔‘
چیف میڈیکل افسر پروفیسر کرس ویٹی کے مطابق برطانیہ میں اب تک 14 افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں اور ان میں کرونا وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن لوگوں کی ایک غیرمعین تعداد کے ٹیسٹوں کا عمل جاری ہے۔
ویٹی نے ایک بیان میں کہا: ’برطانیہ میں عوام کو لاحق خطرہ کم ہے لیکن کسی مرحلے پر کرونا کیسز کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
’ہم نے صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرکے انھیں آزما چکے ہیں۔ برطانیہ اس قسم کے واقعات سے متعدی امراض کے خلاف بہترین مستعدی کے ساتھ نمٹنے کے لیے اچھی طرح تیار ہے۔‘
برطانوی محکمہ صحت جمعے کو اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ مزید کتنے لوگوں کے انفیکشن میں مبتلا ہونے کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
وزیر صحت میٹ ہین کوک نے کہا جمعے کو کوبرا کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کے بعد عوام کو کم خطرہ لاحق ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں اس بیماری کی وبا پر بحث کی گئی جس میں اب تک ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ میں تقریباً ایک ہزار افراد مبتلا ہو چکے ہیں۔
قمری سال کے آغاز کے موقعے پر چین نے چار کروڑ سے زیادہ آبادی والے کم از کم 16 شہروں پر سفری پابندی عائد کر دی ہیں۔
کرونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں ووہان شامل ہے جہاں سب سے پہلے وائرس کی تصدیق ہوئی۔ وسطی چین کے صوبے ہیوبی کے شہر ووہان کے ہمسایہ شہروں میں بھی وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ وائرس میں مبتلا مریضوں کے لیے تیزی سے ہسپتال تعمیر کر رہے ہیں تاکہ وبا پر قابو پایا جا سکے۔
حکام نے بیجنگ شہر کے ممنوعہ علاقے اورعظیم دیوار کے کچھ حصوں کو بند کر دیا ہے تاکہ وہاں زیادہ تعداد میں لوگ اکٹھے نہ ہوں۔ ان مقامات پر کرونا وائرس آسانی سے پھیل سکتا ہے۔
امریکی حکام نے دو افراد کے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی 22 ریاستوں میں 63 دیگر ممکنہ مریضوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
جمعرات کو عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا تھا کہ وائرس پھیلنے کے بعد عالمی سطح پر صحت کی ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنا قبل از وقت ہو گا۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانم گیبرے ییسس نے کہا: ’کوئی غلطی نہ کریں۔ چین میں ہنگامی حالت ہے لیکن ابھی تک عالمی سطح پرصحت کے حوالے سے ہنگامی حالت پیدا نہیں ہوئی۔ پھر بھی ایسا ہو سکتا ہے۔‘
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے خطرے کے جائزے کے مطابق چین میں وبا پھوٹ پڑنے کا بہت زیادہ خطرہ جبکہ علاقائی اور عالمی سطح پر خطرہ ہے۔
کرونا وائرس کی وبا کا سارس وائرس کی وبا کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے۔ سارس وائرس کی وبا 2002 اور 2003 کے درمیان پھیلی، جس میں آٹھ ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے اور17 ممالک میں 774 لوگ مر گئے۔
چین کو سارس (سویئر رسپائریٹری سینڈروم) سامنے آنے کے بعد کمزور رد عمل وبا کے پھیلاؤ کے حوالے سے تفصیلات منظرعام پر لانے سے انکار پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم طبی حکام نے نے کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے چین کے اب تک کے بھرپور ردعمل کو سراہا ہے۔
یورپین ٹورازم ایسوسی ایشن (ای ٹی او اے) نے کہا کہ چین 2002 کے مقابلے میں وائرس پر قابو پانے کے لیے’کہیں بہتر طورپر تیار ہے۔‘
ای ٹی او اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ٹوم جینکنز نے کہا کہ ’جبکہ اس نئے وائرس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ان وجوہات کو نہیں دہرایا جا رہا جو سارس وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کا سبب بنیں۔
’چینی نے حکام نے مسئلے کو جلد نمایاں کیا اور صورت حال کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر معلومات فراہم کر رہا ہے۔‘
جینکنز نے مزید کہا: ’سارس وائرس ان لوگوں نے پھیلایا جن کو انفیکشن کے بارے میں علم نہیں تھا اور نتیجے کے طور پر انھیں پتہ نہیں تھا کہ وہ متاثرہ علاقے سے سفر شروع کر رہے ہیں۔ 2020 میں حالات ماضی جیسے نہیں ہیں۔‘
ای ٹی او اے اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان حالات میں جب کرونا وائرس کی موجود قابل تشویش ہے اس سے یورپ میں سفر کرنے والوں کو’بہت کم خطرہ لاحق ہے۔‘
(اضافی رپورٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے)
© The Independent