مرکزی بینک سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد تک رہنے کے باعث اگلے تین ماہ کے لیے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو جاری کرنے والے قرضوں پر شرح سود کو تیرہ اعشاریہ دو پانچ فیصد کی بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شرح سود مرکزی بینک کا ایسا طریقہ ہے جس سے معشیت میں افراطِ رز کو کنٹرول کیا جاتا ہے، جبکہ معیشت میں موجود اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی شرح کو افراط زر کہتے ہیں۔ جولائی 2019 کے بعد یہ مسلسل تیسری باری ہے جب شرح سود کو اس بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر نے منگل کی شام کراچی میں مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’مہنگائی کی شرح دیکھتے ہوئے شرح سود کو تیرہ اعشاریہ دو پانچ فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
مرکزی بینک کے مطابق پاکستان میں ایک سال کی مدت میں افراط زر میں سات اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوا۔ دسمبر 2018 میں افراط زر پانچ اعشاریہ چار فیصد تھا جو دسمبر 2019 میں بڑھ کر بارہ اعشاریہ چھ تک پہنچ گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق: ’زری پالیسی کمیٹی نے مانیٹری پالیسی کا جائزہ لے کر تخمینہ لگایا ہے کہ افراط زر کو پانچ سے سات فیصد تک کم کرنے کے لیے ڈیڑھ سے دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔‘
انہوں نے بتایا: ’ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، انجینیئرنگ کے سامان، ربڑ کی مصنوعات، سیمنٹ اور کھاد میں تیزی جبکہ گاڑیوں، الیکٹرونکس، خوراک، کیمیکلز اور پیٹرولیم مصنوعات کے شعبے میں سست روی سامنے آئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سال 2020 کے دوران زرعی اجناس کو پہنچنے والے نقصان کے باعث توقعات پوری نہیں ہوئیں تاہم اہم فصلوں کی پیداوار کے تازہ ترین تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کپاس کے سوا خریف کی تمام فصلوں کی پیداوار توقع کے مطابق رہی۔‘
گورنر سٹیٹ بینک کے مطابق: غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر آٹھ ارب ڈالر اضافے سے 11 ارب ڈالر ہوگئے۔ بیرونی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم ہوا ہے۔ مارکیٹ بیس ایکسچینج ریٹ سے انٹرسٹ ریٹ بہتر ہوگیا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’جی ڈی پی گروتھ کم ہوسکتی ہے جبکہ پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلنے کی تمام شرائط پر کام کررہا ہے۔‘
صنعت کار کیا کہتے ہیں؟
مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود کو بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر صعنت کاروں نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے صعنتوں کو نقصان جاری رہے گا جس سے بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
صعنت کاروں کے مطابق سٹیٹ بینک کی ان پالیسیوں کے باعث جولائی سے نومبر 2019 کے دوران ملک کی بڑی صعنتوں میں پانچ اعشاریہ نو فیصد کمی ہوئی ہے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر سراج قاسم تیلی نے کہا: ’ جبکہ سٹیٹ بینک نے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو جاری کرنے والے قرضوں پر شرح سود کو تیرہ اعشاریہ دو پانچ فیصد پر جاری رکھا ہے تو نجی بینک اسی شرح پر صعنت کاروں کو قرضہ نہیں دیتے بلکہ اپنا مارک اپ رکھنے کے بعد سولہ سے سترہ فیصد پر قرضہ دیتے ہیں۔ اس شرح سے صعنتوں کو چلانا ممکن نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیر کو وزیراعظم عمران خان سے کراچی میں ملاقات کے دوران ہم نے ان کو کہا تھا کہ جب تک شرح سود کو نو یا نو فیصد سے کم پر نہیں لایا جاتا صعنت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔‘
دوسری جانب فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق سینیئر نائب صدر سید مظہر علی ناصر نے کہا کہ شرح سود کو برقرار رکھنے سے کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بڑھ جائیں گی جو آنے والی سہ ماہی میں بھی برقرار رہیں گی۔
انہوں نے کہا: ’جب تک حقیقی شرح سود میں کمی نہیں کی جائے گی، حالات بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس صورت حال میں اس ملک میں صعنتوں کا چلنا محال ہے۔‘