پچھلی تحریر میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کے پارلیمان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کچھ یہی حال حکومت کا بھی ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں چاہے وہ صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی، حکومت وہ لوگ بناتے ہیں جنہیں عوام نے صاف اور شفاف الیکشن میں مینڈیٹ دیا ہو۔
صدارتی نظام میں ایک شخص اپنی کابینہ نامزد کرتا ہے جو ضروری نہیں کے منتخب ہوں جبکہ پارلیمانی نظام میں پوری کابینہ ہی ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو عوام سے ووٹ لے کر آئے ہوں۔ دونوں صورتوں میں حکومت پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے اور ان قوانین کے تحت حکومت کرتے ہیں جو پارلیمان نے منظور کئے ہوں۔
حکومت پالیسی سازی کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ بیوروکریسی اسی پالیسی کے تحت عوام کے لیے ریاستی سہولیات پیدا کرے۔ کیا جو جمہوری حکومت کا تصور ہے وہ پاکستان میں موجود ہے؟
پاکستان میں کہنے کو تو وزیر اعظم پارلیمان نامزد کرتی ہے مگر دراصل ہم صدارتی نظام پر چل رہے ہیں۔ فیصلہ ایک شخص کرتا ہے جو عموماً پارٹی کا سربراہ ہوتا ہے اور جب کوئی اور شخص بھی اس عہدے پر رہا جیسے یوسف رضا گیلانی یا شاہد خاقان عباسی اس وقت بھی وہ پارٹی کے سربراہ کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔
پچھلے دس سال میں حکومتوں نے کبھی اس بات کو ضروری نہیں سمجھا کے پارلیمان کو اپنے سے بالا سمجھیں اور ان کے سامنے جوابدہ ہوں۔ موجودہ کابینہ میں تقریباً تمام اہم وزارتیں ان لوگوں کے پاس ہیں جو نہ حکمران پارٹی کے ممبر ہیں اور نہ پارلیمان کے، یعنی معلوم نہیں وہ کس کو جوابدہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت بار بار یہ کہتی ہے کہ وہ مقتدر اداروں کے ساتھ ایک پیج پر ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ خارجہ اور دفاعی پالیسی کے فیصلے ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ اور آخری بات یہ کہ حکومت فیصلے وہ کرتی ہے جس سے عوام کے کام ہوں لیکن پچھلے دس سالوں میں صرف وہ فیصلے کئے گئے جس سے اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ ہوا اور تمام وسائل ان پر خرچ کئے گئے۔
جب کسی ملک میں حکمران نااہل اور بےصلاحیت ہوں تو اس کا بھرپور فائدہ نہ صرف ملک کے اندر موجود مافیا اٹھاتے ہیں بلکہ دوسرے ملک بھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آٹا، چینی اور بلِڈرز سب کے وارے نیا رے ہیں اور بیرونی فنڈ سنبھالنے والے بھی دونوں ہاتھوں سے پاکستان سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔
جتنا منافع وہ پاکستان میں کما رہے ہیں وہ شاید ہی کسی اور ملک میں کما سکیں۔ مودی سرکار کو بھی اندازہ تھا کے یہ ایک کمزور حکومت ہے اسی لیے ہمت ہوئی کے کشمیر پر قبضہ پکا کر لیں۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی دفعہ ہوا ہو کے ایک غیرملکی نمائندہ پاکستان کے دورے کے دوران ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ یہ بھی شاید پہلی دفعہ ہوا ہو کہ پاکستان پر پابندی لگے کہ وہ ایک اہم سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرے۔ غرض یہ کے اس وقت کوئی حکومت موجود نہیں ہے اور نہ ملک کی کوئی سمت ہے۔
پاکستان اس وقت تک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر نہیں چل سکتا جب تک یہاں حقیقی جمہوری حکومت نہ ہو جس کے پاس اختیار بھی ہو۔ موجودہ جمہوری ریاست مکمل ناکام ہو چکی ہے اور اب ایک نئی عوامی فلاحی جمہوری ریاست قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنی ہم اس میں دیر کریں اتنا ہی اس ملک کا مستقبل خطرے میں رہے گا اور حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔