چین میں کرونا وائرس پھیلنے سے دنیا بھر میں ایک نئی وبا کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ پڑوسی ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں بھی تشویش ہے کہ یہاں بھی یہ وائرس نہ آ جائے۔
چین نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے ہیں۔ جدید دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا ہے، عوامی اجتماعات پر پابندی ہے اور سینیما گھر بند کیے جا رہے ہیں، جب کہ دوسری طرف اس وائرس کا توڑ کرنے کے لیے سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں اور مریضوں کے علاج کے لیے راتوں رات ایک جدید ہسپتال تعمیر کیا جا رہا ہے۔
لیکن پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ اگر یہاں وبا پھیل جاتی ہے تو کیا ہو گا؟
پاکستان کے قومی ادارہ برائے صحت کے چیف پبلک ہیلتھ لیبارٹریز ڈویژن ڈاکٹر محمد سلمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے وزارتِ صحت نے ایک ہنگامی مرکز قائم کیا ہے جس میں قومی سطح کی ٹیمیں بنائی گئی ہیں۔ ان میں خاص طور پر نگرانی اور جوابی کارروائی کا بندوبست کیا گیا ہے تاکہ مرض کی جلد تشخیص ہو سکے اور تشخیص کے بعد اسے محدود کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لوگوں کی آگہی کے لیے بھی ٹیم بنا دی گئی ہے تاکہ انہیں خطرے کے بارے میں بتایا جا سکے۔
ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے روزانہ کی بنیاد پر وزیرِ صحت کی نگرانی میں میٹنگز ہو رہی ہیں، جب کہ قومی سطح پر قائم ہنگامی کمیٹی کا اجلاس ہر دو دن بعد ہو رہا ہے۔
اسلام آباد کے مضافات میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے اندر 1983 سے وائرالوجی اور امیونالوجی سینٹر قائم ہے، جس کے اندر انفلوئنزا لیبارٹری بنائی گئی ہے۔ اس لیبارٹری میں پہلے ہی سے دوسرے وائرسوں کے علاوہ کرونا وائرس کی تشخیص کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
کیا پاکستانی لیبارٹریوں میں کرونا وائرس کی تشخیص کا نظام موجود ہے؟
اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر سلمان نے بتایا: ’ہم کرونا وائرس کی تشخیص تو پہلے سے کر رہے ہیں، لیکن حالیہ وائرس چونکہ کرونا وائرس گروپ کے اندر ایک نیا وائرس ہے اس لیے اس کی تشخیص کے لیے ہمارے پاس خصوصی کیمیکل (ریجنٹ) موجود نہیں ہے، البتہ وہ دو دن تک پہنچ جائے گا، جس کے بعد ہم ادارہ قومی صحت میں اس وائرس کے ٹیسٹ کی صلاحیت حاصل کر لیں گے۔‘
کیا ہوائی اڈوں پر نگرانی کی جا رہی ہے؟
انہوں نے کہا: ’ہم نے ہوائی اڈوں پر تھرمل سکینر اور تھرمل گنز نصب کر دی ہیں جن کی مدد سے بخار والے مریض کی نشاندہی ہو سکتی ہے اور اگر کسی مسافر کے اندر کرونا وائرس کی دوسری علامات ملتی ہے تو ان کی تشخیص وہیں ہو سکے اور انہیں وہیں پر الگ تھلگ کر دیا جائے۔‘
’اس کے علاوہ ہم نے بڑے ہوائی اڈوں پر معلومات کے ڈیسک قائم کر دیے ہیں، اور امیگریشن کے عملے اور ایئر پورٹس پر تعینات صحت کے حکام کی تربیت بھی کی جا رہی ہے۔‘
پاکستانی ہسپتال کس حد تک تیار ہیں؟
ڈاکٹر محمد سلمان نے کہا: ’ہم نے وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ہسپتالوں کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ مریضوں کے قرنطینہ کا انتظام کر لیں تاکہ اگر کوئی مریض آتا ہے تو اسے اس جگہ پر الگ تھلگ کر کے ان کا مناسب علاج ہو سکے تاکہ بیماری عام لوگوں تک نہ پھیلے۔‘
کیا ہمارے پاس لوگوں کو بڑے پیمانے پر قرنطینہ میں رکھنے میں سہولیات موجود ہیں؟
ڈاکٹر محمد سلمان کے مطابق فی الحال عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کوئی ایسی ہدایات موصول نہیں ہوئیں کہ آپ بڑی بڑی عمارتیں مختص کر دیں، اس لیے لوگوں کو بڑے پیمانے پر الگ تھلگ کرنے کا معاملہ قبل از وقت ہے۔ مختلف ملک اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق تیاری کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک عالمی ادارہ صحت نے سفر کی پابندیاں نہیں لگائیں۔
کرونا وائرس سے کس قدر خطرہ لاحق ہے؟
انہوں نے کہا: ’وائرس کسی سرحد کو تسلیم نہیں کرتے اور چند دنوں کے اندر کرونا وائرس 18، 19 ملکوں میں پھیل گیا ہے۔ یہ وائرس اتنا نیا ہے کہ اس کا نام تک نہیں تھا۔ اب اسے ناول 2019 کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے اور یہ کافی تیزی سے پھیل رہا ہے اب تک سات ہزار لوگوں میں پھیل چکا ہے۔‘
’تاہم ابھی تک جو بات خوش آئند ہے وہ یہ ہے کہ اس وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح دو یا تین فیصد ہے جو عام انفلوئنزا وائرس کے برابر ہے۔‘
عالمی ادارہ صحت کیا کر رہا ہے؟
ڈاکٹر محمد سلمان کا کہنا تھا: ’ابھی تک عالمی ادارہ صحت نے بین الاقوامی تشویش کی حامل ہنگامی صورت حال کے طور پر نشان زد نہیں کیا، آج اس سلسلے میں ایک اجلاس ہونے والا ہے جس کے بعد اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔‘
یاد رہے کہ حالیہ برسوں میں عالمی ادارہ صحت چار بار ایسی عالمی ہنگامی صورتِ حال کا اعلان کر چکا ہے، جن میں 2016 میں زیکا وائرس، 2014 میں ایبولا وائرس، 2014 میں پولیو کا خاتمہ، اور 2009 میں سوائن فلو پر جاری کیے گئے اعلامیے شامل ہیں۔