بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تُربت کی رہائشی اور کراچی کی ایک یونیورسٹی کی طالبہ ہانی گل بلوچ ’جبری طور پر لاپتہ‘ اپنے منگیتر نسیم بلوچ کی جلد بازیابی کی کوششیں کر رہی ہیں۔
ہانی آخرکار عدالت کی مدد سے اپنی اور اپنے منگیتر نسیم بلوچ کی مبینہ جبری گمشدگی کا کیس کراچی کے بلوچ کالونی تھانے میں درج کرانے میں کامیاب ہوگئی ہیں، جس کے بعد انھیں امید ہے کہ ان کے منگیتر نسیم بلوچ جلد واپس آجائیں گے۔
ہانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ گذشتہ سال 19 مئی کو سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ نامعلوم افراد انھیں اور نسیم کو زبردستی ساتھ لے گئے، بعد میں انھیں تو چھوڑ دیا گیا مگر ان کے منگیتر کا تاحال پتہ معلوم نہیں ہوسکا۔
انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 1500 تک تھی، جبکہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی بلوچستان کی تنظیموں کا دعوی ٰہے کہ صوبے میں 15 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں۔
ان گمشدہ لوگوں کی فہرست میں کچھ خواتیں بھی شامل ہیں ، مگر یہ پہلی بار ہے کہ کسی بلوچ خاتون نے عدالت میں آکر کہا ہو کہ وہ جبری طور پرلاپتہ ہوگئی تھیں۔
ہانی بھی ان خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا۔ ہانینے بتایا کہ وہ اپنے کزن اور منگیتر نسیم بلوچ کے ساتھ ، جو شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (زیبسٹ) کراچی میں قانون کے آخری سیمسٹر کے طالب علم تھے، کراچی کے علاقے ڈفنس فیز ٹو میں رہتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہانی نے بتایا کہ 14 مئی، 2019 کو رمضان کے مہینے میں نسیم پڑھنے کے لیے لیاقت نیشنل لائبریری گئے ہوئے تھے اور وہ گھر پر تھیں۔’ نسیم نو بجے تک گھر آجاتے تھے، مگر اس دن رات دیر تک نہیں آئے ، جب رات کو ڈھائی بجے گھر کی گھنٹی بجی اور میں نے دروازہ کھولا توسول کپڑوں میں ملبوس دس، پندرہ نامعلوم مسلح افراد اندر داخل ہوئے اور زیورات، نقدی، اور موبائل فون اٹھا کر میری آنکھوں پر پٹی باند ھ کر مجھے نامعلوم مقام پر لے گئے۔
’جب میری پٹی کھولی گئی تو وہاں کمرے میں ایک بڑا شیشہ اور بہت سارے کیمرے لگے ہوئے تھے اور وہاں نسیم بیٹھے ہوئے تھے۔ انھیں نقاب اور ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔
’وہ لوگ نسیم اور مجھ سے پوچھتے رہے کہ کیا ہم لوگوں کا تعلق بلوچ علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں سے ہے ؟ ہمارے انکار پروہ ہم پر تشدد کرتے ۔ اگر ہمارے گھر والے فون کرتے تھے تو وہ لوگ ہمیں فون دے کر کہتے تھے کہ گھر والوں کو بتائیں کہ سب خیریت ہے۔‘
ہانی نے مزید بتایا: ’ میں ڈیڑھ مہینے تک ان کی قید میں رہی ،بعد میں ان لوگوں نے میرے منہ پر کپڑا ڈال کر رات کو کراچی کی اقرا یونیورسٹی کے پاس چھوڑ دیا اور کہا کہ نسیم کو بھی جلد چھوڑ دیں گے مگر ابھی تک انھیں آزاد نہیں کیا گیا۔
’میں تھانے گئی مگر پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا ، بعد میں عدالت کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کروائے گئے تب جاکر پولیس نے مقدمہ درج کیا مگر پولیس نے نسیم کی بازیابی کے لیے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے جب بلوچ کالونی تھانے میں ڈیوٹی افسر سے رابطہ کیا تو انھوں نے ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔
انسانی حقوق کمیشن سندھ کے رہنما اسد اقبال بٹ نے بتایا کہ ہانی نے انسانی حقوق کمیشن کو اپنی اور اپنے منگیتر کی جبری گمشدگی کا کیس درج کرنے کے لیے درخواست دی تھی، جس کے بعد ہم نے آئی سندھ کو لکھا اور کیس درج ہوگیا مگر ابھی تک کارروائی نہیں ہوئی۔‘
ایک سوال کے جواب میں اسد اقبال بٹ نے کہا کہ پولیس اور دیگر ادارے لاپتہ افرادکے حوالے سے ہمیشہ مکرجاتے ہیں لیکن جب بھی کوئی ادارہ کسی فرد کو اٹھاتا ہے تو پولیس کو ہر صورت میں آگاہ کرتا ہے، مگر عدالتوں میں بھی پولیس جھوٹ بولتی ہے کہ انھیں پتہ نہیں۔
’بعد میں جب پٹیشن دائر ہوتی ہے تو یہی پولیس مان لیتی ہے کہ انھیں پتہ تھا۔ اگر کسی نے کوئی جُرم کیا ہے تو انھیں عدالت میں پیش کیا جائے اس طرح لاپتہ کردینا غیر قانونی ہے۔‘