پاکستان میں تعینات چین کے سفیر یاؤ جِنگ کا کہنا ہے کہ مہلک کرونا وائرس سے چین میں ہلاکتوں کی تعداد 371 ہو گئی ہے تاہم چینی حکومت اس وبا سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے اور سخت مانیٹرنگ کے بعد ہی چین سے لوگوں کو بیرون ملک سفر کی اجازت دی جا رہی ہے۔
اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چینی سفیر کا کہنا تھا کہ دنیا کو چین کی حکومت کی جانب سے اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا جارہا ہے۔
’ہم نے ملک میں سالِ نو سمیت تمام تقریبات منسوخ کر دی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کو سیل کر دیا گیا ہے تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔‘
انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ چین اپنے لوگوں اور پوری دنیا کے حوالے سے ذمہ دار ہے اور ہم پاکستانی شہریوں کی بالکل اپنے لوگوں کی طرح دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
چینی سفیر کے مطابق جہاں تک پاکستان اور چین کے درمیان سفر کی بات ہے تو ہم صوبے ہیوبے اور ووہان شہر سے لوگوں کو کہیں بھی سفر کی اجازت نہیں دے رہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ہم چینی مسافروں کی بیرون ملک سفر کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، لیکن اگر بہت ضروری ہو تو تب ہی اجازت دی جارہی ہے، تاہم اس کے لیے 14 دن کے لیے انہیں زیر نگرانی رکھا جاتا ہے۔‘
چینی سفیر کے مطابق پاکستان آنےکے بعد ہر چینی شہری کو ہمارا سفارت خانہ اور مقامی ادارے چیک کرتے ہیں جبکہ سفارت خانے کے ساتھ ساتھ اوورسیز چائینیز سوسائٹی بھی انہیں مانیٹر کرے گی۔
یاؤ جِنگ کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے چین کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چینی صدر شی جن پنگ سے رابطہ کرکے اظہارِ یکجہتی پر شکریہ ادا کیا۔
’پاکستان میں کرونا کا کوئی مریض نہیں‘
اس سے قبل پریس بریفنگ کے دوران معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کا کوئی مریض موجود نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سات مریضوں میں کرونا وائرس کا شبہ تھا، جن کے ٹیسٹ کیے گئے، تاہم نتائج سے واضح ہوا کہ انہیں کرونا وائرس نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ آج جو لوگ چین سے آئے ہیں، انہیں ہم نے اپنے طے شدہ پلان کے مطابق وصول کیا اور جہاں ضرورت تھی، وہ اقدامات اٹھائے۔
ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ چین کسی بھی چینی یا پاکستانی کو اس وقت تک بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دیتا جب تک وہ 14 دن کا ڈیزیز فری پیریڈ نہ گزار لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر صورت حال تسلی بخش ہے۔ ’آج میں نے ایک میٹنگ کی صدارت کی، جس میں تمام صوبوں اور سیکٹرز کے افسران نے شرکت کی اور ہم نے صورت حال کا جائزہ لیا، جس میں کئی چیزیں سامنے آئی ہیں، جن پر 24 گھنٹے میں عمل کرکے ہم نظام کو مزید مستحکم کریں گے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اس وائرس کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد نہایت ہی کم ہے اور 100 میں سے صرف تین ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ ہسپتالوں ہیں متاثرہ مریضوں کا علامتی علاج کیا جاتا ہے۔
’چونکہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے اس لیے علامتی علاج میں سر درد یا کھانسی جیسے مسائل کا علاج کیا جاتا ہے۔ اصل مقصد متاثرہ افراد کو تنہائی میں رکھنا ہوتا ہے تاکہ یہ وائرس کسی اور کو منتقل نہ ہو سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وائرس سے شرح اموات محض 2.2 فیصد ہے کیوں کہ متاثرہ افراد میں سے 98 فیصد جسم میں موجود قوت مدافعت سے خود بخود صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ چین میں موجود چار متاثرہ افراد کی صحت تیزی سے بہتر ہورہی ہے۔
پمز میں لائے گئے چینی شہریوں کی آمد کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ماضی قریب میں چین کا سفر نہیں کیا تھا اس لیے اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔
چین سے باہر فلپائن میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت
دوسری جانب فلپائن میں کرونا وائرس سے ایک شخص کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جو اس وائرس سے چین کے باہر دنیا میں پہلی موت ہے۔
مہلک کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں تشویش ہے اور کئی ممالک چین کے ساتھ لگنے والی اپنی سرحدیں بند اور وہاں رہائش پذیر اپنے شہریوں کو ملک واپس لا رہے ہیں۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین میں اموات کے تازہ اعداد و شمار حکومت کی جانب سے ایک بڑے شہر وین زو کو بند کرنے کے ایک دن بعد سامنے آئے ہیں۔ وین زو، ہیوبے صوبے کے شہر ووہان سے 800 کلومیٹر دور واقع ہے، جہاں سے وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا۔
حکام کے مطابق وائرس کے نتیجے میں اب تک 371 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اموات کی یہ تعداد ملک میں سارس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ سارس وائرس سے 2002 میں چین میں 349 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
مشرقی شہر وین زو میں حکام وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ شہر کی سڑکیں بند کر کے لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا گیا ہے۔
پچھلے دسمبر میں ووہان سے شروع ہونے والی کرونا وائرس کی وبا نے چین بھر میں 17 ہزار دو سو افراد کو متاثر کیا ہے اور یہ 24 ملکوں تک پھیل چکا ہے جن میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ ان تمام ممالک میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔ دوسرے ملکوں نے ہیوبے میں موجود اپنے سینکڑوں شہریوں کو نکالنا شروع کر دیا ہے اور چین کے سفر پر پابندی لگا دی ہے۔
بیماری کا پھیلاؤ روکنے کی کوششیں
چین، جہاں پچھلے 24 گھنٹے میں وائرس کے دو ہزار آٹھ سو 29 نئے کیس سامنے آئے ہیں، اس سے نمٹنے کی سخت کوشش کر رہا ہے، ان کوششوں میں عوامی مقامات پر جمع ہونے پر پابندی، گھر سے صرف ایک شخص کو محدود کاموں کے لیے نکلنے کی اجازت اور سکولوں میں چھٹیاں بڑھانا شامل ہیں۔
چین نے کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہسپتال بھی مکمل کر لیا ہے۔ یہ ہسپتال وائرس سے بری طرح متاثر ہونے والے وسطی صوبے ہیوبے کے دارالحکومت ووہان میں 10 روز میں مکمل کیا گیا جبکہ 1500 بستر کا ایک اور ہسپتال بھی زیر تعمیر ہے۔
چین کی پیپلز لیبریشن آرمی کی ٹیمیں پیر کو نئے ہسپتال میں خدامات سرانجام دینے آتی رہیں تاکہ شہر میں کام کرنے والے طبی عملے پر بوجھ کم ہو سکے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سرکاری چینل سی سی ٹی وی پر جدید طبی آلات اور وینٹیلیشن سسٹم سے آراستہ نئے ہسپتال کے وارڈ دیکھے جاسکتے۔
اس وبا پر کام کرنے والے سرگرم چینی سائنس دان زونگ ننشان نے کہا ہے کہ ہسپتال کی زیادہ جگہ مزید انفیکشنز کو روکنے میں اہم ہو گی۔ انھوں نے سی سی ٹی وی کو بتایا: ’ہسپتال میں کمروں کی کمی کے باعث بیمار لوگ گھر واپس جانے پر مجبور تھے، جو نہایت خطر ناک ہے، مزید بستر دستیاب ہونا ایک اچھی بات ہے۔‘
علاج میں پیش رفت؟
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈاکٹر کرونا وائرس میں مبتلا ایسے نئے مریضوں کے علاج میں کامیاب ہو گئے ہیں جن کی حالت بہت خراب تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان مریضوں کو نزلے اور ایچ آئی وی کی ادویات ملا کر دی گئیں جس کے ابتدائی نتائج کے مطابق مریضوں میں 48 گھنٹے میں نمایاں بہتری آئی۔
بینکاک میں راجہ ویتھی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے کہا کہ وائرس کے علاج کے نئے طریقے سے زیر علاج مریضوں کی حالت میں بہتری آئی ہے۔ ان مریضوں میں 70 سالہ ایک چینی خاتون بھی شامل ہیں جن کا تعلق ووہان سے ہے۔ ان کے جسم میں 10 برس سے کرونا وائرس موجود ہے۔
راجہ ویتھی ہسپتال میں پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر کریانگسا اتیپورن ونیک نے رپورٹروں کو بتایا کہ نزلے اور ایچ آئی وی کی ادویات کو ملا کر دینا کرونا وائرس کا علاج نہیں لیکن ان سے چینی مریضہ کی حالت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی خاتون میں 10 برس پہلے کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی اور وہ اس وقت سے ہماری نگرانی میں ہیں، انھیں نزلے اور ایچ آئی وی کی ادویات کا آمیزہ دیا گیا جس کے 48 گھنٹے بعد ان کے جسم میں موجود کرونا وائرس ختم ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی نتائج اچھے ہیں لیکن آیا یہ طریقہ علاج معیاری قرار دیا جا سکتا، اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ چینی حکام کرونا وائرس کے علاج میں پہلے ہی ایچ آئی وی کی ادویات استعمال کررہے ہیں۔
ایک اور ڈاکٹر نے کہا کہ کرونا وائرس میں مبتلا دو دوسرے مریضوں کے اسی طرز کے علاج کے دوران ایک مریض میں الرجی کی طرح کا ردعمل دکھائی دیا لیکن دوسری مریض کی حالت میں بہتری آئی۔
برطانوی ادویہ ساز کمپنی گلیکسوسمیتھ کلائن (جی ایس کے) نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے طریقے تلاش کرنے کے لیے ادویہ ساز کمپنیوں کے اتحاد (سی ای پی آئی) کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنا ہے۔
جی ایس کے بیان کے مطابق کمپنی کی’ایڈجووینٹ پلیٹ فارم ٹیکنالوجی‘ فراہم کی جائے گی جس کی مدد سے کرونا وائرس کی ویکسین تیار کی جائے گی۔ ایڈجووینٹ ادویہ سازی میں استعمال ہونے والا ایسا مواد ہے، جس کی مدد سے زیادہ مقدار میں ویکسین تیار کی جا سکتی ہے۔ اس طرح مطلوبہ ویکسین زیادہ لوگوں کو میسر آئے گی۔