چینی میڈیا کے مطابق کرونا وائرس کی ممکنہ وبا کے بارے میں خبردار کرنے والے چینی ڈاکٹر، ڈاکٹر لی وینلیانگ، اسی وائرس سے ہلاک ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر لی وینلیانگ نے سب سے پہلے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو اس خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے پولیس نے انہیں تنبیہ بھی دی تھی۔
ڈاکٹر لی وینلیانگ اس بیماری کے بارے میں خبردار کرنے والے ان آٹھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے دسمبر کے اخر میں دوسرے ڈاکٹروں کو سارس کی طرح کی بیماری کے بارے میں پیغام پہنچانے کی کوشش کی تھی۔
چینی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک انگریزی زبان کے اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے اس سے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ ووہان سنٹرل ہسپتال میں داخل ڈاکٹر لی کے دل نے ’دھڑکنا بند کر دیا‘ جس کے بعد ان کی حالت نازک ہو گئی تھی۔
ہسپتال نے ویبو (چین میں استعمال کی جانے والی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ) کے اکاؤنٹ پر ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹر لی ایمرجنسی علاج کے بعد جمعے کی رات (چینی وقت کے مطابق) دو بج کر اٹھاون منٹ پر انتقال کر گئے۔
اس سے پہلے اطلاعات سامنے آئیں تھیں کہ وہ ڈاکٹر لی کو ایمکو (سانس کے مصنوعی نظام) پر رکھا گیا ہے اور ڈاکٹر ان کی حالت میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دسمبر میں پولیس نے ڈاکٹر لی پر افواہیں پھیلانے کا الزام لگایا تھا اور حکومت کے پبلک سیفٹی بیورو نے انہیں طلب کیا تھا جہاں انہیں خبردار کیا گیا تھا انہیں ایسے بیانات نہٰیں دینے چاہییں جن سے ’معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہو۔‘
ڈاکٹر لی کو دیے گئے خط میں کہا گیا: ’ہم آپ کو باضابطہ طور پر خبردار کرتے ہیں: اگر آپ ایسی بےتکی ضد پر قائم رہے اور اس غیرقانونی سرگرمی کو جاری رکھا تو آپ کو انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیا آپ بات سمجھ گئے؟‘
چین کی سپریم کورٹ نے بعد میں ووہان میں کریک ڈاؤن پر پولیس پر تنقید کی اور تسلیم کیا کہ کرونا وائرس کے بارے میں اطلاع مکمل طور پر غلط نہیں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر لی میں بھی وائرس کی موجودگی کی تشخیص 30 جنوری کو ہوئی۔ وائرس کے نتیجے میں اب تک چھ سو سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ہنگامی حالات کے پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک رائین نے ڈاکٹر لی موت کی خبر کے بعد جنیوا میں ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’ہمیں اگلی صفوں میں کام کرنے والے ایک ایسے کارکن کی موت کا بہت دکھ ہوا ہے جنہوں نے مریضوں کی دیکھ بھال کی کوشش کی۔ ہم خود اگلی صفوں میں کام کرنے والے اپنے دوستوں کو کھو چکے ہیں اس لیے ہمیں ڈاکٹر لی کے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ مل کر ان کی زندگی پر خوش اور موت پر غم زدہ ہونا چاہیے۔‘
برطانیہ میں جمعرات کو کرونا وائرس کا تیسرا کیس رپورٹ کیا گیا اگرچہ حکومتی چیف میڈیکل افسر کرس ویٹی نے کہا کہ مریض کو بیماری برطانیہ میں نہیں لگی۔
ایسا چین کے لندن میں سفیر کے برطانیہ پر الزام کے چند گھنٹے بعد ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ برطانیہ کرونا وائرس کی وبا پر ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ برطانوی حکومت نے چین میں موجود اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
برطانیہ میں چینی سفیر لیو شیاؤمنگ نے کہا: ’ہم نے انہیں زور دے کر کہا ہے کہ ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مددگار نہیں ہو گا۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ ایک معقول ردعمل کے لیے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مشورہ کریں۔ ضرورت سے زیادہ ردعمل کا مظاہرہ نہ کریں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’برطانیہ سمیت تمام ملکوں کو سمجھنا چاہیے اور چین کی مدد کرنی چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ ردعمل اور خوف پھیلانے سے گریز کیا جائے اور ملکوں کے درمیان معمول کا تعاون اور تبادلے یقینی بنائے جائیں۔‘
© The Independent