عام طور پر لوگوں کو کسی ایوارڈ کا پتہ ہو نہ ہو، آسکرز کا تھوڑا بہت علم ضرور ہوتا ہے اور جو بھی اینٹرٹینمنٹ میں تھوڑی بھی دلچسپی رکھتا ہے ان کو آسکرز کی اہمیت کا بھی اندازہ ہے۔ اسی لیے شاید ساشل میڈیا کے اس زمانے میں آسکرز تنقید کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں۔
ہمیں لگا مغرب نے اتنی ترقی کر لی ہے تو وہاں کے معاشرے سے کئی تعصبات اب تک ختم ہو چکے ہیں لیکن آسکرز کی تاریخ پر تھوڑا غور کیا تو کچھ اور ہی حقیقت دیکھنے کو ملی۔
سالانہ ہونے والے آسکرز کی یہ 92ویں تقریب ہو گی۔ 92 سالوں کے اس طویل عرصے میں صرف پانچ خواتین ہدایت کاروں کو بیسٹ ڈائریکٹر کے لیے نامزد کیا گیا اور ان میں سے ایک خاتون ہدایت کار کیتھرین بگلو کو 2010 میں اس اعزاز سے نوازا گیا۔ اس سال بھی اس اعزاز کے لیے نامزد کیے گئے تمام ہدایت کار مرد ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی میں شائع ہوئی تحقیق کے مطابق آسکرز کی تاریخ میں 2،085 آسکر جیتنے والوں میں سے صرف 201 خواتین ہیں۔ اس گنتی میں جینڈر سپیسیفک کیٹیگری شامل نہیں۔ یعنی دیکھا جائے تو آسکر کی تاریخ میں 10 فیصد ایوارڈز خواتین کو دیے گئے ہیں۔
صنفی تعاصب کا حال یہ ہے کہ خواتین کو سب سے زیادہ آسکرز کاسٹیوم ڈیزائن میں ملے ہیں۔ جیسے کے فلم سازی میں عورتوں کا کپڑوں اور میک اپ کے علاوہ کوئی اور اہم کردار نہ ہو۔ خواتین کے حوالے سے ایک عمر کا تعصب بھی ہے۔
پچھلے 92 سالوں میں جیتنے والی اداکاراؤں میں صرف 11 اداکارائیں ایسی ہیں جن کی عمر 50 سے اوپر ہو۔ ان کے مقابلے میں 21 جیتنے والے اداکاروں کی عمر 50 سے اوپر ہوگی۔ آسکرز کی تاریخ میں 32 اداکارائیں ایسی ہیں جو 30 سال سے کم عمر کی ہیں اور انہوں نے آسکرز جیتا ہو۔
چلیں صنفی تعاصب سے ہٹ کر دیکھیں تو آسکرز میں سفید فام لوگوں کو ’برتری‘ حاصل ہے۔ ویسے تو یہ بھی کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ دنیا میں سفید فام بالادستی ہے اور ہالی وڈ میں سفید فام لوگوں کا راج۔ آسکرز یکسانیت کا شکار ہے۔ اس بات پر لوگوں نے 2015 میں آسکرز پر تنقید کی تھی کہ آسکرز بس صرف امیر، سفید فام لوگوں کے لیے ہے جس میں مردوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن آسکرز کی تاریخ کو دیکھیں تو ایک یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو نامزد کرنا چاہیے اور کسے ملنا چاہیے۔
سیلکیشن کا طریقہ کیا ہے؟
سکرز کا فیصلہ کرنے والی جیوری میں ہر سال 8،000 سے زائد لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس جیوری کا حصہ بننے کے لیے ان کو کم از کم تین فلموں ایک ہی کردار نبھایا ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی اداکار جیوری میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اس نے تین فلموں میں مین اداکار کا رول نبھایا ہو۔
اس طرح اگر کوئی ساؤنڈ افیکٹ کی کیٹیگری میں ووٹ کرنا چاہتا ہے تو اس کو کم از کم تین فلموں میں اسی کردار میں کام کیا ہونا چاہیے۔ ووٹر بننے کے لیے اس طرح کی ضروریات ہوتی ہیں لیکن یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ 8،000 لوگ ہوتے کون ہیں؟ ان لوگوں کے اپنے کیا کیا تعصبات ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے فلم ناقد فراز طلعت سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے بتایا کہ جیوری میں زیادہ تر ہالی وڈ کے بڑے لوگ شامل ہوتے ہیں بلکہ اسی بات پر تنقید بھی ہوئی ہے کہ یہ لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کو ایوارڈز دے دے کر تھپکیاں دے دیتے ہیں۔
لیکن فراز نے یہ بھی کہا کہ چونکہ 8،000 ایک بڑا نمبر ہے تو تعصبات شاید پھر بھی تھوڑے کم ہو جاتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق آسکرز کے ووٹنگ ممبران میں 16 فیصد لوگ وہ ہیں جو سفید فام نہیں۔
مگر شاید اس تنقید کا تھوڑا اثر ہوا ہے۔ فراز کہتے ہیں کہ اس سال بیسٹ فلم اور بیسٹ فورین لینگویج فلم کے علاوہ کوریئن فلم ’پیراسائٹ‘ کو مختلف کیٹیگریز میں نامزد کیا گیا ہے، حالانکہ تاریخ میں صرف 10 فارن فلموں کو بیسٹ فلم کی کیٹیگری میں نامزد کیا گیا ہے۔
اس دفعہ بہترین فلم کے ایوارڈ کی نامزدگیوں میں ’لٹل ویمن‘ اور ’میرج سٹوری‘ جیسی فلمیں شامل ہیں جو ان مضامین پر مبنی ہیں جو مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ دیکھتی ہیں۔ اس دفعہ بہترین اداکارہ کی کیٹیگری میں رینی زلویگر کو بھی نامزد کیا گیا ہے جو اس بات کی نشانی ہے کہ آسکرز میں صرف جوان اداکاروں کو ہی نہیں نامزد کیا جاتا۔ اگر وہ جیت جاتی ہیں تو تاریخ پھر سے ایک بار قائم ہوگی اور اگر بہترین فلم کا ایوارڈ ’پیراسائٹ‘ کو مل جاتا ہے تو آسکرز میں ایک اور مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
لیکن فراز کہتے ہیں کہ چونکہ ’جوکر‘ اور ’1917‘ میں سفید فام لوگوں کے لیے زیادہ کشش تھی تو شاید ہی ’پیراسائٹ‘ کو آسکر کا سب سے شاندار اعزاز ’بہترین فلم‘ کا ایوارڈ مل سکے۔ دیکھتے ہیں۔