ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشرتی ترقی کے باوجود جنسی ہراسانی کے واقعات ’خطرناک حد تک زیادہ‘ ہیں۔
برطانیہ کی ٹریڈز یونین کانگریس (ٹی یو سی) کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ ’می ٹو‘ تحریک نے لوگوں کو حوصلہ تو دیا ہے کہ وہ جنسی ہراسانی کے خلاف زیادہ کھل کر بات کریں، لیکن اس نے جنسی ہراسانی کے انفرادی واقعات پر کوئی اثر نہیں ڈالا۔
ٹی یو سی کی سابقہ تحقیق میں پتہ چلا تھا کہ آدھی سے زیادہ خواتین اور 18 سے 24 سال عمر کی تقریباً دو تہائی خواتین کو اپنی ملازمت کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے تجربے سے گزرنا پڑا۔
اپنی نئی رپورٹ میں تنظیم نے حکومت پر زور دیا ہے کہ قانون میں تبدیلیاں کی جائیں تاکہ جنسی ہراسانی کے مزید واقعات کو روکا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹی یو سی کی جنرل سیکرٹری فرانسس اوگریڈی نے کہا: ’می ٹو تحریک نے جنسی ہراسانی کے بارے میں زیادہ کھل کر بات کرنے میں مدد دی ہے۔ لیکن مسئلے کے بارے میں صرف بات کرنے سے یہ حل نہیں ہو گا۔ حکومت پہلو تہی کرنا بند کرے اور قانون بدلے۔‘
’کام کی جگہ پر ہراسانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے متاثرین کی بجائے آجر حضرات ذمہ دار ہونے چاہییں۔‘
جنسی ہراسانی سے متعلق نئی رپورٹ ٹی یو سی کے سالانہ ’ہارٹ یونینز ویک‘کے آغاز پر سامنے آئی ہے۔ ٹو یو سی کی ویب سائٹ کے مطابق: ’ہارٹ یونینز ویک کے تحت پورے برطانیہ اور ویلز میں اس اچھے کام کو اجاگر کیا جاتا ہے جو کام کی جگہ پر ہر کسی کو بولنے کی طاقت دینے کے لیے یونین ہر روز کرتی ہیں۔
رواں برس اس ہفتے کا موضوع کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کے خاتمے کے گرد گھومتا ہے۔
اوگریڈی نے مزید کہا: ’ہم ہر ایسے فرد پر، جو جنسی ہراسانی روکنا چاہتا ہے، زور دے رہے ہیں کہ وہ اس ہارٹ یونینز ویک کے موقعے پر ہمارے ساتھ شامل ہو اور وزرا سے مطالبہ کریں کہ اب وہ عملی قدم اٹھائیں۔‘
© The Independent