پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی بیٹی اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز کی لمبے عرصے سے غیر معمولی خاموشی، آرمی ایکٹ میں ترمیم کے قانون کی غیر مشروت حمایت کے بعد مبینہ ڈیل کی باتیں اور پارٹی کے ناراض سینیئر سیاست دان چوہدری نثار کا اچانک لندن کا دورہ کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ن لیگ کے سینیئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر سے خصوصی گفتگو میں انھی سوالات کے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
چوہدری نثار کی واپسی
گذشتہ دنوں یہ خبر آئی تھی کہ کچھ ن لیگی رہنماؤں نے چوہدری نثار علی خان کی پارٹی میں دوبارہ انٹری کی کوششیں تیز کردی ہیں اور ان دنوں سابق وزیر داخلہ کی لندن میں موجودگی پر قیاس آرئیاں ہیں کہ وہ شریف برادران سے معاملات طے کر رہے ہیں۔ تاہم محمد زبیر نے ان افواہوں کی تردید کرتے ہوئے کہا ’پاکستانیوں کے لیے لندن دوسرے گھر کی طرح ہے، ان کا اس وقت لندن جانا محض ایک اتفاق ہے۔ اِس وقت چوہدری نثار کی نواز شریف سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔‘
سابق وزیر داخلہ نے 34 سال تک ن لیگ اور شریف برادران سے رفاقت کے بعد 2018 میں علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے 2018 میں نواز شریف اور مریم نواز پر براہ راست سخت تنقید کی تھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نواز شریف سے دوری کے باوجود شہباز شریف کے اب بھی قریب ہیں، لیکن ان کی برطانیہ میں موجودگی کو پارٹی میں واپسی سے جوڑنے کی خبروں میں زیادہ وزن محسوس نہیں ہوتا۔
چوہدری نثار کے پارٹی میں دوبارہ فعال کردار ادا کرنے کے حوالے سے محمد زبیر کا کہنا تھا کہ سابق وزیر داخلہ کے ن لیگ میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
’ایک وقت تھا جب نواز شریف، مریم نواز، ان کے شوہر اور پارٹی کے کئی ارکان جیل میں تھے، اس مشکل وقت میں وہ پارٹی کے ساتھ نہیں تھے۔ ن لیگ نے یک طرفہ احتساب کا سامنا کیا، اس دوران پارٹی کے رکن کی حیثیت سے ان پر لازم تھا کہ وہ نواز شریف کا ساتھ دیں۔
’اگر وہ سمجھتے تھے کہ پارٹی نے غلطیاں کیں تو وہ پارٹی کے ساتھ رہ کر بعد میں اپنے حق کے لیے لڑ سکتے تھے۔‘
مریم نواز کی خاموشی اور لندن روانگی
نومبر میں چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت ملنے کے بعد مریم نواز نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنے والد کی عیادت و تیمارداری کے لیے بیرونِ ملک جانے کی درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر 18 فروری کو دو رکنی بینچ سماعت کرے گا۔
مریم نواز کو آخری مرتبہ نواز شریف کی لندن روانگی کے وقت دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہیں۔ ٹوئٹر اور سیاسی سرگرمیوں میں انتہائی فعال رہنے والی ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی خاموشی کے حوالے سے کئی اندازے لگائے جارہے ہیں لیکن پارٹی میں ان کے قریب تصور کیے جانے والے محمد زبیر کے مطابق یہ خاموشی اب صرف چند ہفتوں کی مہمان ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مریم نواز کی جانب سے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ مستقبل میں وہ مستقل طور پر پاکستانی سیاست میں حصہ لینا چاہتی ہیں اور موجودہ حالات کے پیشِ نظر ان کا طرزِ سیاست پہلے سے مختلف ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز لندن جانا چاہتی ہیں لیکن انھیں ضمانت ملنے کے باوجود صرف شک کی بنیاد پر روکا ہوا ہے۔
’مریم نواز دو ٹویٹ کرتی ہیں تو انھیں پکڑ کے جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر حکومتِ وقت ہمیں یہ ضمانت دے کہ سیاسی طور پر فعال ہونے کی وجہ سے مریم نواز کو نہیں پکڑا جائے گا تو چند ہفتوں میں بھرپور طریقے سے سیاست کریں گی۔‘
سابق گورنر نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ نواز شریف امریکہ میں علاج کروائیں گے۔ ’ان کا گھر اور خاندان دونوں لندن میں ہیں، اس لیے وہ لندن میں ہی علاج کروائیں گے۔‘
مشرف کے فارم ہاؤس کو پناہ گاہ بنانے کا مطالبہ
گذشتہ دنوں سابق وزیر خزانہ اور ن لیگی رہنما اسحٰق ڈار کے لاہور میں واقع گھر ’ہجویری ہاؤس‘ کو سرکاری پناہ گاہ بنانے کے حکومتی اقدام پر لاہور ہائی کورٹ نے حکمِ امتناع جاری کیا ہے جس کے مطابق اس مکان کو سرکاری پناہ گاہ میں تبدیل کرنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
حکومت کے اس قدم پر محمد زبیر کا کہنا تھا: ’حکومت اس طرح کے قدم سے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اشتہاری صرف اسحٰق ڈار نہیں بلکہ پرویز مشرف بھی ہیں۔ چک شہزاد میں ان کا محل نما فارم ہاؤس ہے، وہاں تو زبردست پناہ گاہ بنے گی۔ اگر حکومت میں ہمت ہے تو پرویز مشرف کے گھر کو پناہ گاہ بنا کے دکھائیں۔‘
انھوں نے پارٹی کے سینیئر رہنماؤں پر نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے کہا: ’چھ ماہ سے مریم نواز پر کوئی ریفرنس دائر ہوا ہے اور نہ ہی شاہد خاقان عباسی پر کوئی کیس چلایا گیا۔ حکومت صرف پکڑ کر جیل میں ڈال دیتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ضمانت دائر کرنے کی درخواست کا مشورہ بھی نواز شریف نے ہی دیا تھا کیوں کہ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں کہ ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا لیکن حکومت نہیں چاہتی کہ ایسا ہو۔‘
اسد عمر کو ن لیگ جوائن کرنے کی پیشکش؟
موجودہ حکومت کے وزیر برائے ترقیات و منصوبہ بندی اسد عمر جو سابقہ وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں، محمد زبیر کے بھائی تو ہیں لیکن دونوں بھائیوں کی سیاسی وفاداریاں مختلف ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کے دوران زبیر نے اپنے چھوٹے بھائی کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوجائیں۔ ’پی ٹی آئی نے ان کی اس طرح سے قدر نہیں کی جیسے ہونی چاہیے تھی۔
’اقتدار میں آنے سے پہلے اسد عمر پی ٹی آئی کے پوسٹر بوائے تھے، پی ٹی آئی کے تمام دعوؤں کو انھوں نے ہی سچ کرنا تھا لیکن پارٹی کے کچھ ارکان نے ان کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کے کان بھرے۔ عمران خان کیوں کہ انتہائی بے چین انسان ہیں، اس لیے انھوں نے جلد بازی میں غلط فیصلہ لیتے ہوئے قلم دان حفیظ شیخ کو دے دیا جن کا پارٹی کے منشور سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔‘
عمران مائنس فارمولا اور دوبارہ الیکشن
محمد زبیر نے ملک میں اپوزیشن کے صاف و شفاف الیکشن کے مشترکہ مطالبے کے حوالے سے کہا حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کی وجہ سے حکومت میں ہے۔ ’اگر عمران خان کو ہٹا کر شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا دیا جائے اور باقی کابینہ پی ٹی آئی کی ہو تو معاملات نہیں چل سکتے اس لیے بہتر ہے کہ دوبارہ الیکشن کروائے جائیں۔‘
مولانا فضل الرحمٰن کی ن لیگ سے ناراضگی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ’موجودہ حکومت کے آنے کے بعد اپوزیشن میں نہ بیٹھنے اور دھرنے کی سیاست کرنے کی سوچ سے ہم اتفاق نہیں کرتے، اس لیے وہ (مولانا فضل الرحمٰن )ناراض ہیں۔ حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمٰن کی تیسری مہم کا حصہ یہ دیکھنے کے بعد ہی بنیں گے کہ مولانا کا کیا پلان ہے۔‘
محمد زبیر کا انڈپینڈنٹ اردو کو دیا گیا مکمل انٹرویو دیکھیے: