راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی طوبیٰ ادریس ڈار پاکستان کی انڈر 19 ویمن فٹبال ٹیم کی فٹبال کیپر ہیں۔
طوبیٰ اے لیولز کر رہی ہیں لیکن فٹبال وہ تیسری جماعت سے کھیل رہی ہیں۔ جب وہ بڑی ہوئیں تو انہوں نے اپنی والدہ کو دیکھ کر حجاب پہننا شروع کر دیا۔
طوبیٰ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا، ’میں ہمیشہ سے کھیلوں میں سب سے آگے تھی۔ تو جب میں نے حجاب پہننا شروع کیا تو میرے آس پاس کے لوگ حیران ہو گئے۔ وہ پوچھتے تھے کہ حجاب اور کھیل ساتھ ساتھ کیسے چلے گا؟ لیکن میرے ذہن میں تو یہ بات آئی ہی نہیں تھی۔‘
طوبیٰ نے کہا کہ پاکستان میں لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے سے منع کیا جاتا ہے۔ ’پاکستان میں مردوں کے فٹبال کی اہمیت نیہں ہے تو خواتین کی فٹبال کا آپ سوچ سکتے ہیں کیا حال ہوگا۔‘
’فیلڈ میں جو ہم محنت کرتے ہیں وہ تو ہوتی ہی ہے لیکن فیلڈ تک پہنچنا بھی ایک بہت بڑا مرحلہ ہوتا ہے۔ لڑکیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ہمارے کپڑوں پہ تنقید ہوتی ہے۔ گھر میں کرفیو ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ لوگوں کی باتیں سنتے ہیں کہ لڑکیاں فٹبال نہیں کھیل سکتیں۔ ان میں طاقت نہیں ہوتی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی کچھ لوگ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ جب میں بھوٹان میں سیف چیمپیئن شپ کھیل رہی تھی تو وہاں بنگلہ دیش کی ٹیم مجھے ’ہیلمٹ، ہیلمٹ‘ کہہ کر پکار رہی تھی۔ پھر لوگ ایسے سوال بھی پوچھتے ہیں کہ تمہیں گرمی نہیں لگتی؟ پن نہیں چبھتی؟ لیکن میں یہ باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی ہوں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘
کھلاڑیوں کی ذہنی صحت پر بات کرتے ہوئے طوبیٰ نے کہا کہ لڑکیوں کو پیش آنے والے الگ مسائل ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان پر عام ٹین ایجرز والے بھی کافی دباؤ ہوتے ہیں۔
’ ہمیں اپنی پڑھائی پر بھی دھیان دینا ہوتا ہے، اس کا الگ دباؤ ہوتا ہے کہ گریڈز اچھے آ جائیں۔ ٹریننگ کے لیے کیمپ میں تین چار مہینے اپنے گھروالوں سے بھی دور رہنا پڑتا ہے۔ ٹریننگ کے دوران کھانے پینے پر بھی پابندیاں ہوتی ہیں۔ ایک عام سولہ سالہ بچے کے لیے یہ بہت پریشر ہوتا ہے۔ یہ ساری وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہم اکثر فیلڈ میں پرفارم نہیں کر پاتے۔‘
’جب تک آپ ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے تو آپ فیلڈ میں کیسے پرفارم کریں گے؟‘
طوبیٰ نے کہا کہ پاکستان میں ذہنی صحت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور سپورٹس سائیکولوجی کی سمجھ اور بھی کم ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دباؤ سے نمٹنے کے لیے انہوں نے تھیراپی لی تھی اور اب وہ اب بہت اچھا محسوس کرتی ہیں۔ اسی تجربہ سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام آباد اور راول پنڈی میں واقع سوچ کلینکس میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اے لیولز میں انہوں نے نفسیات، بزنس اور انگریزی کا انتخاب کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے گھروالوں کا ساتھ دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ’میرے والد خود ایک کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ میری والدہ بھی میری بہت حوصلہ افزائی کرتی ہیں حالانکہ وہ خود نہ کوئی کھیل کھیلتی ہیں نہ ہی انہیں کھیلوں میں کوئی دلچسپی ہے۔ باقی میری ٹیم، میرے دوست اور میرے کوچ بھی میری ہمت باندھے رکھتے ہیں۔‘
طوبیٰ کہتی ہیں کہ چونکہ پاکستان میں خواتین کی فٹبال کا کوئی سکوپ نہیں ہے تو وہ کوشاں ہیں کہ وہ امریکہ میں کسی یونیورسٹی کے ساتھ فٹبال سکالرشپ پر آگے پڑھیں اور فٹبال کھیلتی رہیں۔