حقوق انسانی کی تنظیموں نے متحدہ عرب امارات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اماراتی شہزادی تک انہیں فوری رسائی دے۔ انہیں ایک سال قبل ملک سے فرار کی کوشش کے دوران مبینہ طور پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
33 سالہ شیخہ لطیفہ شیخ محمد بن راشد المکتوم کی بیٹی ہیں جنہیں مبینہ طور پر گذشتہ برس بھارتی شہر گوا فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار کرکے زبردستی واپس دبئی لایا گیا۔ اس کے بعد سے وہ عوامی سطح پر نہیں بولی ہیں۔
انہیں اس کے بعد سے محض ایک مرتبہ دیکھا گیا ہے جب وہ آئرلینڈ کی سابق صدر اور اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کی ہائی کمشنر میری رابنسن کے دورے کے دوران دبئی میں لی گئی تصاویر میں دکھائی دیں۔
دسمبر میں اس عجیب ملاقات کی خاصی تشہیر ہوئی جسے حقوق انسانی کی تنظیموں نے جعلی قرار دیا۔ مس رابنسن دبئی کے حکمران کی اہلیہ شیخہ حیاء کی ذاتی دوست ہیں۔
اقوام متحدہ نے شیخہ لطیفہ کی ’اپنی رضامندی کے خلاف حراست‘ پر مداخلت کے لیے کہا ہے۔
لطیفہ کے ڈرامائی انداز میں سمندر میں پکڑے جانے کے ایک سال بعد حقوق انسانی کی تنظیموں نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ ان کی صحت کے بارے میں تشویش میں ہیں اور انہیں ابھی تک معلوم نہیں کہ مارچ 2018 سے لے کر دسمبر تک ان کے ساتھ کیا ہوا۔ متحدہ عرب امارات سے درخواستوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی جن میں ان تک رسائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ہومن رائٹس واچ کی ہیبہ زایدن نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہومن رائٹس واچ ابھی بھی انہیں کسی تیسرے ملک سفر کرنے کی اجازت مانگ رہے ہیں جہاں وہ کسی خوف کے بغیر کھل کر آزادانہ بات کر سکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مس رابنسن لطیفہ کا جائزہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتیں جو انہیں لوگوں میں گھری ہوئی تھی جنہوں نے انہیں مبینہ طور پر لاپتہ کیا ہوا ہے۔‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایسا ہی مطالبہ کر رکھا ہے۔
ایمنسٹی کے ڈیون کینی کہتے ہیں کہ ’یو اے ای کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا ہے جو کبھی بھی اندرونی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا جواب نہیں دیتی ہے۔ شاہی خاندان کے ساتھ مس رابنسن کے ظہرانے کے بعد سے لطیفہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔‘
’ڈیٹینڈ ان دبئی‘ نامی برطانیہ میں قائم تنظیم کی سربراہ رادھا سٹرلنگ نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے کو اٹھائیں گی۔
’ہمیں 2018 کے اواخر میں معلوم ہوا ہے کہ لطیفہ زندہ ہیں، بظاہر وہ زیر علاج ہیں جس کی انہیں اس سے قبل ان کی زندگی میں کبھی بھی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اب بھی نہ آزادانہ طور پر گھوم پھر سکتی ہیں اور نہ بات چیت کر سکتی ہیں۔ یو اے ای نے اقوام متحدہ کے ساتھ ان کے اغوا کے معاملے میں تحقیقات میں تعاون نہیں کیا ہے، تاہم یہ تفتیش جاری ہے۔‘
اپنے ناکام فرار سے قبل شیخہ لطیفہ نے ایک ویڈیو ریکارڈ کیا تھا جسے ان کے دوستوں نے ان کی گمشدگی کے بعد جاری کیا تھا۔ اس میں انہوں نے امارات کو چھوڑنے کی وجوہات بتائیں، جن میں ڈرائیونگ یا سفر کرنے کی اجازت نہ ہونا اور باپ کے حکم پر تین سال کے لیے قید کیے جانا شامل تھا۔
40 منٹ کی اس ویڈیو میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان پر تشدد کیا گیا، انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا، جان سے مارنے کی دھمکی دی اور ماضی میں دوسری فرار کی کوششوں کے بعد نشہ آور دوائیں دی گئیں۔
انہیں گذشتہ برس مارچ میں اومان کی سرحد کے تک ان کی فینش مارشل آرٹ کی استاد ٹینا جوہانین گاڑی میں لے گئیں جہاں جیٹ سکی لے کر ایک کشتی میں فرانسیسی سپیشل فورسز کے افسر ہاروی جوبر منتظر تھے۔ بھارتی کوسٹ گارڈز نے کشتی کو روکا جس کے نو ماہ بعد لطیفہ امارات میں پائی گئیں۔
اماراتی حکام نے متعدد بار شیخہ لطیفہ کو زبردستی گھر واپس لانے یا نقصان پہنچانے سے انکار کیا ہے لیکن یہ کبھی واضح نہیں کیا کہ مارچ میں گرفتاری سے لے کر دسمبر 2018 کے درمیان کیا ہوا۔ نہ نوجوان شہزادی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
وہ شیخ مکتوم کی بیٹیوں میں سے دوسری ہیں جو لاپتہ ہوئی ہیں۔ لطیفہ کی بڑی بہن شمسہ کو کیمبرج کی گلیوں میں سرے میں خاندانی رہائش سے 2000 میں فرار ہوتے ہوئے پکڑ لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد سے نہ تو انہیں دیکھا گیا اور نہ ہی سنا گیا ہے۔
دوبئی حکام نے انڈپینڈنٹ کی ردعمل کے لیے درخواست پر جواب نہیں دیا لیکن کسی غلط کارروائی سے انکار کیا ہے۔ دسمبر میں سکائی نیوز کو ایک تحریری بیان میں حکام نے کہا کہ انہیں میڈیا میں اس بارے میں افواہوں پر ’شدید صدمہ‘ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لطیفہ ’دوبئی میں محفوظ ہیں‘ اور ’ایک خوشحال اور مستحکم مستقبل کی خواہاں ہیں۔‘
مس رابنسن نے دورے کے بعد کہا کہ شہزادی ذہنی طور پر بیمار تھیں اور دعویٰ کیا کہ اغوا کے بعد ان کی رہائی کے لیے تاوان مانگا گیا تھا۔ رابنسن نے بی بی سی ریڈیو فور کو دسمبر میں بتایا تھا کہ ’لطیفہ خطرے میں، مشکل میں ہیں۔ انہوں نے ایک ویڈیو بنائی تھی جس کا اب انہیں افسوس ہے اور یہ ان کے بھاگنے کے منصوبے کا حصہ تھا۔ اس کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔ ان کا دماغی علاج کروایا جا رہا ہے۔ وہ مزید تشہیر نہیں چاہتے۔‘
رادھا سٹرلنگ دبئی میں زیرحراست
سابق آرئرش صدر کی حقوق انسانی کی تنظیموں نے کڑی تنقید کی کہ وہ شہزادی کے اتنے طویل عرصے تک غائب رہنے کے بارے میں سوال نہیں اٹھا سکیں ہیں۔
مس رابنسن نے انڈپینڈنٹ سے بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
سٹرلنگ نے کہا کہ مس رابنسن ’بظاہر دبئی کے بیان کو رٹے کی طرح پڑھ رہی تھیں‘ اور اسے ’شہرت حاصل کرنے کی کوشش‘ قرار دیا۔
انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ہاروی جوبر، جنہوں نے شہزادی کی بھاگنے میں مدد کی تھی، نے کہا کہ ان کی آخری بات اس وقت ہوئی جب بھارتی کوسٹ گارڈ انہیں کشتی پر سے گھسیٹ رہے تھے۔ ’اس کے بعد سے میری کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہیں انہیں 24/7 نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ اور وہ انہیں فون بھی نہیں دے رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شہزادی نے پہلی مرتبہ ان سے رابطہ 2011 میں ان کی اپنے فرار سے متعلق کتاب پڑھ کر کیا تھا۔ وہ سات سال سے بھاگنے کی فلائٹ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
فرار کی کوشش کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی پرچم والی کشتی بھارتی ساحل سے دور بین الاقوامی پانیوں میں تھی جب انہوں نے ’ڈیٹینڈ ان دبئی‘ اور دیگر حقوق انسانی کی تنظیموں سے رابطہ کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ان کا پیچھا انڈین کوسٹ گارڈز کر رہے تھے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ چار مارچ 2018 کا حملہ ’پوری جنگی کارروائی‘ تھی جس میں تین کشتیاں اور جاسوسی کا طیارہ شریک تھے۔ انہوں نے بھارتی حکام پر تشدد کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے لطیفہ کو گھسیٹنے کے دوران ’لاتیں مارتے اور سیاسی پناہ چیختے‘ ہوئے سنا۔ ’یہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہے۔ ہم انہیں دوبارہ نہیں دیکھ سکے ہیں۔ وہ انہیں ہیلی کاپٹر میں لے گئے۔‘
حقوق انسانی کی تنظیمیں اکثر اوقات متحدہ عرب امارات میں حقوق کی خلاف ورزیوں خصوصاً عورتوں کے حقوق کی شکایات کرتی رہتی ہیں۔ کسی عورت کے بھاگنے کی تازہ مثال 43 سالہ ہند البلوکی ہیں جنہوں نےیو اے ای سے فرار کے بعد شمالی مقدونیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی۔ انہوں نے یہ اقدام اپنے خاندان کی جانب سے طلاق نہ دینے کے بعد اٹھایا تھا۔ سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے پر انہوں نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے انہیں واپس متحدہ عرب امارات بھیجے جانے کے خدشے کا اظہار کیا۔
کینی کہتے ہیں کہ ’شیخہ لطیفہ اور ہند البلوکی کے درمیان آپ کے پاس مردوں کے رویوں کی وجہ سے بھاگنے کے عوامی سطح پر واقعات ہیں۔‘