گذشتہ برس رمضان میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان راشد احمد خان نے رائٹ ٹو انفارمیشن (معلومات تک رسائی) قانون کے ذریعے درخواست کی تھی کہ انہیں پشاور یونیورسٹی کے اندر واقع کرکٹ کے میدانوں کے مالی اخراجات کے حوالے سے معلومات دی جائیں۔
تاہم راشد خان کو کئی ماہ انتظار کے بعد صرف اتنا معلوم ہوا کہ ان کرکٹ کے میدانوں میں باہر سے آکر کھیلنے والوں کے لیے فیس کتنی مقرر ہے، لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک وہ معلومات نہیں ملی ہیں جو بقول ان کے انہیں چاہیے تھیں۔
اکتوبر 2013 میں عوام کی فلاح کے لیے خیبر پختونخوا اسمبلی سے پاس ہونے والے آرٹی آئی ایکٹ کے مطابق کسی بھی شخص کو معلومات حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے اس ادارے یا محکمے کو خط لکھنا پڑتا ہے جہاں سے ان کو معلومات مطلوب ہوں۔ درخواست جمع کروانے کے دس دن میں متعلقہ ادارہ معلومات فراہم کرنے کا مجاز ہوتا ہے، بصورت دیگر درخواست گزار آر ٹی آئی کمیشن کے پاس شکایت لے کر جاتا ہے جس کے بعد کمیشن متعلقہ ادارے کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے، جس کے نتیجے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ 60 دن کا وقت دیا جاتا ہے۔
راشد خان کے مطابق:’مجھے پشاور یونیورسٹی کے کرکٹ کے میدانوں کا تین سالہ ریکارڈ چاہیے تھا، مثلاً ان سالوں میں کتنی فیس جمع ہوئی؟ کس اکاؤنٹ میں جمع کروائی گئی؟ اور اگر یہ یونیورسٹی کے کسی کام پر خرچ ہوئے تو اس کی تفصیل بھی دی جائے۔ ایک سال کے اس عرصے میں مجھے صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلنے کی یومیہ فیس چار ہزار ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ان سے اور دیگر لوگوں سے یونیورسٹی کئی سالوں سے فی دن کے حساب سے آٹھ ہزار وصول کرتی رہی ہے جب کہ حقیقت میں یہ فیس چار ہزار تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب دیکھنا یہ ہے کہ جو فیس چار ہزار فیس مقرر تھی کیا وہ بھی یونیورسٹی کے اکاؤنٹ میں گئی ہے یا نہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب طاقتور اداروں کی بات آتی ہے تو آر ٹی آئی کمیشن ان کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ میں نے اس سے پہلے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے لیے بھی کمیشن سے رجوع کیا تھا لیکن وہ شکایات تاحال زیر التوا ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک کمیشن پشاور یونیورسٹی پر جرمانہ عائد کر چکی ہوتی۔‘
راشد نے مزید کہا: ’لیکن سمن پر سمن بھیجے جارہے ہیں جن کی تعداد اب آٹھ ہو چکی ہے اور نتیجہ صفر۔‘
اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے آر ٹی آئی کمیشن کے کمشنر ریاض داؤد زئی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ کمیشن پاکستان تحریک انصاف کا میگا پروجیکٹ ہے اور 2014 سے لے کر اب تک 16 ہزار درخواستیں ان کو ملی ہیں جن میں آٹھ ہزار کو فوری معلومات فراہم کی جاچکی ہیں۔
داؤد زئی کے مطابق: ’پشاور یونیورسٹی کے کرکٹ گراؤنڈز کی جہاں تک بات ہے تو اس حوالے سے چار ہزار فیس کا علم بھی ان کو رائٹ ٹو انفارمیشن کے ذریعے ہوا تھا۔ یہ نظام بنایا ہی اسی لیے گیا ہے کہ عوام کی خدمت کی جائے، لیکن ہم ابھی بھی اس ادارے کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اب تو قبائلی اضلاع بھی خیبرپختونخوا میں ضم ہونے سے پورے صوبے میں اضلاع کی کُل تعداد 35 ہوگئی ہے۔ ہمارا کام بھی بڑھ گیا ہے، لیکن اس کے باوجود کوشش یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جلد از جلد معلومات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔‘
کمشنر صاحب اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ بعض درخواست گزاروں کو مہینوں یا سال سے زائد انتظار کیوں کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے بعد بھی مطلوبہ یا پوری معلومات نہیں دی جاتیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ خود ان درخواست گزاروں کے لیے لڑ رہے ہیں، لیکن بعض اوقات کچھ ادارے ایسی منطق پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے معلومات نکالنے میں عرصہ لگ جاتا ہے۔
آر ٹی آئی کا غلط استعمال
ریاض داؤد زئی نے بتایا کہ لوگ آر ٹی آئی کا غلط استعمال بھی کر رہے ہیں۔ ’رائٹ ٹو انفارمیشن عوام کے فائدے کے لیے بنا ہے۔ اس کے ذریعے بڑے بڑے کیسز میں لوگ مدد حاصل کر رہے ہیں اور عوام اب تک کافی مفید معلومات حاصل کر چکے ہیں، لیکن آج کل ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور انتقام لینے کے لیے بھی لوگ اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ جیسے کہ فلاں کی بیوی کی عمر کیا ہے؟ ان کا جاب انٹرویو کس نے کیا تھا؟ عام حالات میں ہم اس بات کے پابند ہیں کہ عوام کو 60 دن کے اندر معلومات بہم پہنچائیں۔‘
رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن خیبرپختونخوا کے مطابق جولائی 2019 سے لے کر اب تک ان کے پاس 662 شکایات موصول ہوئی ہیں، جن میں سے 378 کو حل کیا جا چکا ہے جب کہ 284 زیر التوا ہیں۔ علاوہ ازیں کل 662 شکایات میں سے 629 مردوں اور 33 خواتین کی جانب سے فائل ہوئی ہیں۔
آر ٹی آئی نظام کو کس طرح موثر اور شفاف بنایا جا سکتا ہے؟
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے سے وابستہ پشاور کے ایک کنسلٹنٹ کاشف خان کا کہنا ہے کہ آر ٹی آئی کے نظام کو ڈیجیٹلائز کرکے اس کو مزید آسان اور موثر بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ معلومات حاصل کرنے کے لیے خط و کتابت کا جو قدیم طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس کی وجہ سے نہ صرف اکثر لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے بلکہ اس کی وجہ سے درخواست گزاروں کا پورا ریکارڈ بھی سامنے نہیں آتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ ادارہ بڑی آسانی سے کسی بھی درخواست کو دبا یا چھپا سکتا ہے، یہ اور بات کہ کوئی درخواست گزار ثابت قدم ہو۔
’اس فرسودہ طریقہ کار کی ایک خرابی یہ ہے کہ اگر آپ آر ٹی آئی کمیشن سے یہ پوچھیں کہ اب تک لوگوں نے پورے صوبے کے اداروں میں کتنی درخواستیں دی ہیں اور اس کا موجودہ سٹیٹس کیا ہے تو کمیشن کے پاس یہ معلومات موجود نہیں ہوں گی۔ کیونکہ ان کو تب پتہ چلتا ہے جب کوئی ادارہ کسی درخواست گزار کو مطلوبہ معلومات نہیں دیتا۔ ایسے میں اکثر لوگ اسی موڑ پر حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں، لیکن جو لوگ کمیشن کے پاس جا کر شکایت درج کراتے ہیں تو وہ ریکارڈ کا حصہ بن جاتے ہیں۔‘
کاشف خان نے اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ ’ایک آسان حل یہ ہے کہ آرٹی آئی کو بھی سٹیزن پورٹل کی طرح آن لائن خطوط پر استوار کیا جائے۔ دوسری صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ ہر صارف اپنے شناختی کارڈ کے ذریعے اپنا آن لائن اکاؤنٹ بنائے، جو اسی شناختی کارڈ کے ساتھ منسلک موبائل نمبر کے ذریعے تصدیق شدہ ہو۔ اب جب صارف اس سسٹم کے ذریعے کسی بھی ادارے سے معلومات مانگے گا تو وہ اس کو چھپا یا اس میں تاخیر نہیں کر سکے گا۔ کمیشن بھی ہر مرحلے سے آگاہ رہے گا بلکہ متعلقہ محکمے یا ادارے کی جانب سے معلومات نہ دیے جانے پر ازخود نوٹس بھی لے سکے گا۔ علاوہ ازیں عوام اور میڈیا کی معلومات کے لیے درخواست گزاروں کا ریکارڈ آن لائن موجود ہوگا جس سے کسی ادارے کا احتساب بھی آسان ہوگا۔ ‘
کاشف خان نے تجویز دیتے ہوئے مزید کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے آن لائن سسٹم میں اس بات کی یقین دہانی کروائی جانی چاہیے کہ درخواست کو بند کرنے کا اختیار اس ادارے کے پاس نہ ہو جس سے معلومات مانگی گئی ہوں، بلکہ یہ صارف یا آر ٹی آئی کمیشن کی صوابدید ہو۔