امریکی حکام نے گوگل پر 17 کروڑ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا ہے جس کی وجہ مبنیہ طور پر یوٹیوب پر بچوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی بتائی جا رہی ہے۔
فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) اور نیو یارک کے اٹارنی جنرل کے مطابق ٹیک جائینٹ کمپنی نے اپنی ویڈیو شئیرنگ ویب سائٹ پر غیر قانونی طور پر بچوں کی معلومات اکٹھی کر کے لاکھوں ڈالر کمائے تھے۔
ایف ٹی سی کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے یوٹیوب نے 1998 کے چلڈرن آن لائن پرائیویسی ایکٹ (کوپا) کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق ویب سائٹ پر یہ لازم تھا کہ وہ 13 سال سے کم عمر بچوں کی معلومات اکٹھی کرنے سے پہلے بچوں کے والدین کی رضا مندی حاصل کرے۔
گوگل نے نیویارک کو تین کروڑ چالیس لاکھ جبکہ ایف ٹی سی کو 13 کروڑ 60 لاکھ جرمانہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ بچوں کی پرائوسی کیس میں ایف ٹی سی کو ملنے والا اب تک کا سب سے زیادہ جرمانہ ہے۔ تاہم یوٹیوب کی آمدن کے مقابلے میں یہ رقم بہت کم ہے۔ صرف گذشتہ سال کمپنی کو امریکی اشتہارات کی مد میں 3.36 ارب ڈالرز کی آمدن ہوئی تھی۔
ایف ٹی سی میں یہ فیصلہ 2-3 سے پاس ہوا۔ اس فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والے دونوں ڈیموکریٹس کا کہنا تھا کہ یوٹیوب کے لیے یہ جرمانہ کافی نہیں ہے۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیمیں جو اس معاملے میں حکومی تفتیش کا موجب بنانے میں کوشاں تھیں نے بھی جرمانے کی رقم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ڈیموکریٹ کمشنر روہت چوپڑا کے مطابق یہ 2011 کے بعد تیسرا موقع تھا جب گوگل پر پرائیویسی کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ روہت چوپڑا نے ٹویٹ کی کہ یوٹیوب ’بچوں کو نظمیں، کارٹون اور اسی قسم کی اور چیزیں دکھا کر اپنے اشتہاروں پر مبنی منافع بخش کاروبار کو چمکاتا ہے۔ یہ منافع بخش ہے لیکن یہ غیر قانونی ہے۔‘
انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ اس فیصلے میں کسی کو انفرادی طور پر جواب دہ نہیں ٹھہرایا گیا جبکہ لیے جانے والے اقدامات بھی ناکافی ہیں اور جرمانے کی رقم ’کمپنی کو قوانین توڑتے ہوئے منافع کمانے کی اجازت دیتی ہے۔‘
کمرشل فری چائلڈ ہوڈ مہم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوش گولن نے کہا: ’یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ ایف ٹی سی اس حوالے سے قابل ذکر تبدیلیاں نہیں لا رہی یا اور گوگل کو سالوں تک بچوں کی معلومات غیر قانونی طور پر اکٹھی کرنے پر ذمہ دار نہیں ٹھہرا رہی۔‘
فیصلے کے بعد نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیشا جیمز کا کہنا تھا کہ گوگل اور یوٹیوب نے ’جانتے بوجھتے ہوئے بچوں کی نگرانی جاری رکھی اور انہیں مخصوس اشتہارات دکھائے‘ تاکہ اپنے منافع میں اضافہ کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا: ’ان کمپنیوں نے بچوں کو خطرے میں ڈالا ہے اور اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ان کے عوامل میں بڑی اصلاحات کے نفاذ کا کہہ رہے ہیں اور ان پر امریکی تاریخ میں پرائیویسی معاملات پر سب سے بڑا جرمانہ عائد کر رہے ہیں۔‘
ایف ٹی سی کے چئیر جو سمنز کا کہنا ہے: ’یوٹیوب میں نے بچوں میں اپنی مقبولیت کو کارپوریٹ کلائنٹس کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن جب کوپا پر عملدرآمد کی بات آئی تو کمپنی نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس کے پلیٹ فارم کے کچھ حصے بچوں کے لیے مخصوص تھے۔ یوٹیوب کے پاس قوانین کی خلاف ورزی کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گوگل 2011 سے ایف ٹی سی کے ایک بیس سالہ معاہدے کے تحت آزادانہ پرائیویسی آڈٹ کا پابند ہے اس کے علاوہ یہ بھی کہ وہ اپنی پرائیویسی پالیسی پر غلط بیانی سے کام نہیں لے گا۔ گوگل کو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر 2012 میں دو کروڑ پچیس لاکھ ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا جب ایف ٹی سی کو اس بات کا علم ہوا تھا کہ گوگل کی جانب سے ایپل سفاری براؤزر میں ٹریکنگ کوکیز کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
گوگل کے ایک ترجمان نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا کہ کمپنی اس حالیہ فیصلے پر کچھ کہنا نہیں چاہتی لیکن انہوں نے ایک بلاگ پوسٹ شئیر کی جس میں بچوں کی معلومات کو محفوظ رکھنے کی تفصیلات دی گئیں تھیں۔
اس بلاگ پوسٹ میں کہا گیا: ’یوٹیوب پر ذمہ داری ہماری اولین ترجیح ہے۔ بچوں اور ان کی پرائیویسی کو محفوظ رکھنے سے اہم کچھ نہیں ہے۔‘
ایک اہم تبدیلی جو گوگل متعارف کروا رہا ہے اس کے مطابق بچوں کے لیے موجود مواد دیکھنے والا ہر شخص بچہ تصور کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اکٹھی کی جانے والی معلومات محدود ہوگیں اور ٹارگٹڈ اشتہار بھی نہیں دکھائی جائیں گے۔
ان ویڈیوز پر کمنٹس اور نوٹیفیکیشن بھی غیر فعال ہوں گے۔ کچھ صارفین جنہوں نے بچوں کے لیے مخصوص مواد کو کاروبار کے طور پر لیا ہے ان اقدامات کو مواد پر منفی اثر کے طور پر دیکھیں گے۔
ان اصلاحات سے متاثر ہرنے والے یوٹیوب چینلز کے لیے یوٹیوب 10 کروڑ ڈالر کا ایک فنڈ بھی قائم کرے گا جسے بچوں کے لیے اورینجنل مواد بنانے میں استعمال کیا جائے گا۔
یوٹیوب کے خلاف ایف ٹی سی کے جرمانے کا واشنگٹن فیڈرل کورٹ سے منظور ہونا باقی ہے۔
اس رپورٹ میں خبررساں ایجنسیوں کی معاونت شامل ہے۔
© The Independent