جاپان میں ان مسافروں کو بحری جہاز سے اتارنا شروع کر دیا گیا ہے جن میں ٹیسٹ کے بعد کرونا وائرس کے آثار نہیں ملے اور نہ ہی ان میں اس مہلک بیماری کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔
جاپان میں کرونا وائرس کے 500 سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ بدھ کو شروع ہونے والے اس عمل کے آغاز کے بعد آئندہ گھنٹوں میں 500 کے قریب مسافروں کو کروز شپ سے اتار لیا جائے گا۔
اس بحری جہاز پر مسافر کئی ہفتوں سے پھنسے ہوئے ہیں تاہم اب ان کے ٹیسٹ کے نتائج آنے کے بعد انہیں جہاز سے اتارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور حکام کو امید ہے کہ اس عمل میں تین دن لگ سکتے ہیں۔
جاپانی وزارت صحت کے مطابق ’ڈائمنڈ پرنسسز‘ نامی یہ کروز شپ تین فروری کو ہانگ کانگ سے جاپان پہنچا تھا اور پہلے پہل اس پر موجود صرف ایک شخص میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
نئے اعداد و شمار کے مطابق جاپانی ساحل پر لنگر انداز اس کروز شپ ڈائمنڈ پرنسسز میں ابھی تک 542 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔
یوکوہاما بندرگاہ کے قریب لنگر انداز اس بحری جہاز پر تین ہزار سے زیادہ مسافر سوار ہیں جن میں 380 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
کرونا وائرس سے متاثرہ جہاز سے باہر نکلنے والے 77 سالہ جاپانی مسافر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے (باہر آ کر) سکون ملا ہے۔۔۔ اب میں خوب آرام کرنا چاہتا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ جاپان ریلوے سسٹم کے ذریعے اپنے گھر جانے کے لیے سفر کریں گے۔
اس دوران بندر گاہ پر سٹی بسوں کے علاوہ ایک درجن سے زیادہ ٹیکسیاں قطاروں میں کھڑی ہیں جن کے ذریعے بحری جہاز سے نکلنے والے مسافروں کو ان کے گھروں تک لے جایا جائے گا۔
جہاز سے نکلنے والے افراد اپنا سامان گھسیٹتے ہوئے باہر آتے اور اپنے ساتھیوں کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نظر آ رہے تھے جس کے جواب میں جہاز پر رہ جانے والے مسافر بھی ہاتھ ہلا کر انہیں الوداع کہہ رہے تھے۔
ادھر خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بدھ کو دو ہزار تک جا پہنچی ہے۔
چینی اور بین الاقوامی صحت کے حکام نے متنبہ کیا ہے کہ اس وائرس کو روکنے کے لیے بڑے اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔
کرونا وائرس سے چین میں متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 74 ہزار ہو گئی ہے جبکہ دیگر 25 ممالک میں ایسے سو سے زائد افراد ہیں جن میں کرونا وائرس پایا گیا ہے۔
تاہم چینی حکام کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق زیادہ تر مریضوں میں معمولی نوعیت کا انفیکشن پایا گیا ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حکام کہتے ہیں کہ شرح اموات کافی حد تک کم ہو گئی ہے۔
وائرس کے پھوٹنے کے بعد سے چین میں کاروباری سرگرمیاں بند ہیں اور اس سے عالمی معیشت کو شیدد دھچکا لگا ہے۔
کئی ممالک نے چین سے آنے والے مسافروں پر پابندی لگا دی ہے جبکہ ایئرلائنز کی جانب سے پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
منگل کو روس کا کہنا تھا کہ 20 فروری سے کسی بھی چینی شہری کو ملک میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔