جنوبی کوریا: پارلیمنٹ نے ووٹ کے ذریعے مارشل لا ختم کر دیا

جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے یہ کہتے ہوئے ہنگامی مارشل لا کا اعلان کیا تھا کہ یہ قدم ’کمیونسٹ قوتوں‘ سے ملک کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔

صدر یون سوک یول تین دسمبر، 2024 کو ٹی وی پر براہ راست خطاب کے دوران جنوبی کوریا میں مارشل لا کا اعلان کر رہے ہیں (اے ایف پی)

جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے منگل کی رات صدر یون سک یول کی جانب سے محض چند گھنٹے قبل ملک میں نافذ کیے گئے مارشل لا کے اعلان کو اٹھانے کے حق میں ووٹ دیا۔

صدر نے مارشل لا کا اعلان کرتے ہوئے ’ریاست مخالف‘ قوتوں کو ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا کیونکہ وہ ملک کی پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے والی حزب اختلاف کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں اور کمیونسٹ شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی کا الزام لگاتے ہیں۔
امریکی نیوز ایجنسی اسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مارشل لا کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے اعلان اٹھانے کے حق میں ووٹ دیا۔

قومی اسمبلی کے سپیکر وو وون شیک نے اعلان کیا کہ قانون ساز ’عوام کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حفاظت کریں گے۔‘

انہوں نے نے پولیس اور فوجی اہلکاروں سے اسمبلی کے احاطوں سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا۔

صدر کے حیران کن اقدام نے آمرانہ دور کی یاد تازہ کی، جسے ملک نے 1980 کی دہائی سے نہیں دیکھا تھا اور اس کی فوری طور پر اپوزیشن اور یون کی اپنی قدامت پسند پارٹی کے رہنما نے مذمت کی تھی۔

جنوبی کوریا کی یونہاپ نیوز ایجنسی کے مطابق صدر کے اعلان کے بعد جنوبی کوریا کی فوج نے اعلان کیا تھا کہ پارلیمان اور دیگر سیاسی اجتماعات، جو ’سماجی الجھن‘ کا باعث بن سکتے ہیں، معطل کر دیے جائیں گے۔‘

یونہاپ نے کہا کہ فوج نے یہ بھی کہا کہ ملک کے ہڑتالی ڈاکٹروں کو 48 گھنٹوں کے اندر کام پر واپس آنا چاہیے۔

میڈیکل سکولوں میں طلبا کی تعداد بڑھانے کے حکومتی منصوبوں کے خلاف ہزاروں ڈاکٹر مہینوں سے ہڑتال پر ہیں۔ فوج نے کہا کہ جو بھی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

جنوبی کوریا کے قانون کے تحت پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹ کے ساتھ مارشل لا کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔

اعلان کے فوراً بعد قومی اسمبلی کے سپیکر نے اپنے یوٹیوب چینل پر تمام قانون سازوں سے اسمبلی کی عمارت میں جمع ہونے کا کہا۔

انہوں نے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ ’پرسکون رہیں اور اپنے عہدوں پر فائز رہیں۔‘

ووٹ میں حصہ لینے والے تمام 190 قانون سازوں نے مارشل لا کے خاتمے کی حمایت کی۔ ٹیلی ویژن فوٹیج میں ایسے فوجیوں کو دیکھا جا سکتا ہے، جو پارلیمنٹ میں تعینات تھے اور ووٹنگ کے بعد وہاں سے چلے گئے۔

اس سے قبل  ٹی وی نے پولیس افسران کو اسمبلی کے داخلی راستے کو روکتے ہوئے اور ہیلمٹ والے فوجیوں کو عمارت کے سامنے رائفلیں اٹھائے دکھایا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک فوٹوگرافر نے کم از کم تین ہیلی کاپٹر دیکھے، جو ممکنہ طور پر فوج کے تھے، جو اسمبلی کے میدان کے اندر اترے، جب کہ دو یا تین ہیلی کاپٹر اس جگہ کے اوپر چکر لگا رہے تھے۔

یون کی قدامت پسند پیپلز پاور پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہون نے مارشل لا لگانے کے فیصلے کو ’غلط‘  قرار دیا اور ’عوام کے ساتھ مل کر اسے روکنے‘ کا عزم کیا۔

2022 کے صدارتی انتخابات میں یون سے شکست کھانے والے اپوزیشن لیڈر لی جے میونگ نے یون کے اعلان کو ’غیر قانونی اور غیر آئینی‘ قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مارشل لا کا نفاذ

جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے منگل کو یہ کہتے ہوئے ہنگامی مارشل لا کا اعلان کر دیا کہ یہ قدم ’کمیونسٹ قوتوں‘ سے ملک کی حفاظت کے لیے ضروری تھا۔

یون نے ٹی وی پر براہ راست قوم سے خطاب میں کہا کہ ’شمالی کوریا کی کمیونسٹ قوتوں سے لاحق خطرات سے جنوبی کوریا کو بچانے اور ریاست مخالف عناصر کو ختم کرنے کے لیے... میں ایمرجنسی مارشل لا کا اعلان کرتا ہوں۔‘
 
’مخالف پارٹی نے عوام کی زندگیوں کی پرواہ کیے بغیر صرف مواخذے، خصوصی تحقیقات اور اپنے رہنما کو انصاف سے بچانے کے لیے حکومت کی کارکردگی کو مفلوج کر دیا۔‘
 
یہ غیر متوقع اقدام اس وقت سامنے آیا جب یون کی پیپلز پاور پارٹی اور اپوزیشن کی ڈیموکریٹک پارٹی اگلے سال کے بجٹ بل پر جھگڑ رہی ہیں۔ 
 
اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ نے پچھلے ہفتے ایک پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے بجٹ منصوبے کو نمایاں طور پر کم کر دیا تھا۔

’ہماری قومی اسمبلی جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ بن چکی ہے، ایک ایسی قانون ساز آمریت کا گڑھ جو عدلیہ اور انتظامی نظام کو مفلوج کرنے اور ہماری لبرل جمہوری نظام کو پلٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

انہوں نے اپوزیشن ارکان پر الزام لگایا کہ انہوں نے ’تمام اہم بجٹوں کو کاٹا جو ملک کے بنیادی کاموں کے لیے ضروری تھے، جیسے کہ منشیات کی جرائم کا مقابلہ کرنا اور عوامی تحفظ کو برقرار رکھنا... ملک کو منشیات کا گڑھ اور عوامی سلامتی کی ابتری میں بدل دیا ہے۔‘
 
یون نے اپوزیشن کو ’ریاست مخالف قوتیں‘ قرار دیا جو ’حکومت کو گرا کر نظام کو الٹنے کی کوشش کر رہی ہیں‘  اور اپنی فیصلے کو ’لازمی‘ قرار دیا۔
 
’میں جلد از جلد ریاست مخالف قوتوں کو ختم کر کے ملک کو معمول پر واپس لاؤں گا۔‘
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا