ہم نے صوبہ سندھ کے شفیع گوٹھ میں گھریلو خواتین کے ساتھ بنیادی انسانی حقوق پر دو گھنٹے کی ایک نشست کا گذشتہ دنوں اہتمام کیا۔ اس دوران ان خواتین کو درپیش مسائل کا اداراک ہوا۔
دوران سیشن بعض خواتین نے اپنے ذاتی مسائل بتائے۔ ایک خاتون کے مطابق گھر والوں کی رضامندی سے انہوں نے اپنی 15 سال کی بیٹی کی شادی کر دی۔ شادی کے بعد لڑکی کا خاوند پلنگ سے باندھ کر اس پر تشدد کرتا تھا۔ اس پر طرح طرح کے الزامات لگاتا تھا آخر تنگ آ کر بیٹی اپنے میکے واپس آگئی اور طلاق کا مطالبہ کر دیا لیکن لڑکی کا خاوند طلاق دینے پر راضی نہیں ہوا۔ اس دوران انہوں نے وکیل سے بات کی۔ وکیل نے ہم سے لڑکی کا نکاح نامہ مانگا تو وہ ان کے پاس نہیں تھا کیونکہ شادی کے وقت مولوی نے زبانی کلامی نکاح پڑھوایا تھا۔ ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ وکیل کی کوششوں سے انہوں نے بعد میں نکاح نامہ بنوانے کے بعد اپنی لڑکی کو طلاق دلوائی۔
دوران سیشن کچھ خواتین نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ ان کے نو عمرلڑکوں کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور ہفتوں غائب رہنے کے بعد وہ واپس گھر آتے ہیں۔ علاقہِ خواتین کے مطابق اس معاملے میں کچھ جرائم پیشہ عناصر متحرک ہیں جو کہ تاوان کے لیے لڑکوں کو اغوا کرتے ہیں اور ان سے اپنے لیے غیرقانونی کام کرواتے ہیں۔ کچھ نو عمر لڑکے ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ ہونے والے لڑکوں کی عمریں 14سے 21، 22 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔
اس گوٹھ میں بنیادی انسانی ضروریاتِ زندگی کی سہولیات سے متعلق شکایات بےشمار ہیں۔ بیشتر افراد بجلی، گیس، پینے کے صاف پانی اور سیوریج، نکاسیِ آب کے مسائل میں الجھے ہیں۔ علاوہ ازیں صحت و تعلیم کی سہولیات کی عدم دستیابی بھی بڑی شکایات ہیں۔
علاقے کی خواتین کے مطابق ان کے ہاں اگر کوئی عورت رات کو بیمار ہو جائے تو اس کے علاج معالجے کے لیے کوئی ڈاکٹر موجود نہیں۔ اس پر جب ہم نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ لوگ ’کوہی گوٹھ ہسپتال‘ میں علاج کی غرض سے نہیں جاتے، وہاں تو عملہ 24 گھنٹے موجود رہتا ہے؟ ان خواتین کا کہنا تھا کہ وہاں پر کوپن سسٹم ہے، صبح قطار میں لگ کر بڑی مشکل سے کوپن حاصل کرو اور پھر طویل انتظار کے بعد دوپہر تک باری نہیں آتی۔ اس کے بعد ہمیں مطلع کیا جاتا ہے کہ اب آپ لوگ کل آ کر چیک اپ کروائیں، آج کا دورانیہ ختم ہو گیا ہے۔ ادویات حاصل کرنے کے لیے بھی انہیں کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ روز بروز مہنگائی کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں سرکاری سکول موجود ہونے کے باوجود انہیں اپنے بچوں کو نجی سکول میں داخل کروانا پڑتا ہے کیونکہ سرکاری سکول کا عملہ آئے روز مبینہ طور پر غائب رہتا ہے۔
علاقے کے لوگ روزگار جیسے مسائل کا بھی شکار ہیں۔ غیرتعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر انہیں شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نادرا آفس کے کئی کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اسی سبب علاقے کی بہت سی خواتین 18 سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود ابھی تک شناختی کارڈ سے محروم ہیں۔
سیشن کے دوران ہمیں اس بات کو دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہماری خواتین ان افسوسناک حالات کے باوجود زندگی گزارنے کے گر جانتی ہیں اور انہیں اپنی معاشرتی اہمیت کا بھی خوب اندازہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ 18 سال سے کم عمر افراد کی شادی کو شعوری طور پر غیرقانونی نہیں سمجھتیں، ان میں یہ شعور ہی نہیں کہ کم عمر افراد کی شادی پاکستان کے آئین کی رو سے غیرقانونی ہے اور یہ جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
میرے خیال میں جیسے جیسے بنیادی تعلیم اور اس طرح کی آگاہی نشستوں کا دائرہ کار وسیع ہو گا تو معاشرے میں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔