بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر رسائی کے لیے ورچول پرائیوٹ نیٹ ورک (وی پی این) ایپس کے استعمال پر خلاف کریک ڈاؤن کر رہا ہے۔
نئی دہلی نے گذشتہ سال پانچ اگست کو خطے کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرتے وقت مقامی آبادی کی آواز دبانے کے لیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اگرچہ اب خطے میں محدود انٹرنیٹ سروسز بحال کر دی گئی ہیں تاہم فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تاحال پابندیاں عائد ہیں اور کشمیری عوام وی پی این اور پراکسی سرورز کے ذریعے ان پابندیوں کو بائی پاس کر رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ وی پی این استعمال کرنے والے افراد کشمیر میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا انہیں کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کشمیر سائبر پولیس کے سربراہ طاہر اشرف نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم نے 100 سے زیادہ سوشل میڈیا صارفین کی شناخت کی ہے اور ایسے مزید صارفین کی شناخت کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا کو علیحدگی پسندی اور بھارت مخالف پروپیگینڈے کے فروغ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘
ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس نے پراکسی سرورز کے ذریعے میسجنگ نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرنے والے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔
بھارت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پانچ اگست کو آئین میں جموں و کشمیر سے الحاق کا قانونی معاہدہ ختم کر کے خطے میں نئی کشیدگی کو جنم دیا تھا۔
بھارت کے اس قدم سے مسلم اکثریت رکھنے والی ریاست جموں و کشمیر دو وفاقی خطوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوں سے غیرمسلم باشندے یہاں آباد ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچ اگست کے اقدام کے بعد بھارت نے سیکڑوں افراد کو حراست میں لیا اور مواصلات پر پابندیاں نافذ کر دیں۔ بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ شہریوں کے احتجاج کو روکنے کے لیے ان اقدامات کی ضرورت تھی۔
وی پی این کے ذریعے صارفین مقامی انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والے نیٹ ورک کی بجائے کسی نجی سرور کے ذریعے پابندی کے شکار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
سری نگر میں 37 سالہ عادل الطاف نامی تاجر نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے موبائل فون پر ایک درجن وی پی این ایپس ڈاؤن لوڈ کی ہیں۔ ’اگر وہ (بھارتی حکام) ایک وی پی این بلاک کرین گے تو میں دوسرا استعمال کر لوں گا۔‘
کشمیر کی ایک اور رہائشی سلیمہ جان نے بتایا کہ انہوں نے چندی گڑھ کے کالج میں زیر تعلیم اپنے بیٹے کے ساتھ ویڈیو چیٹ کے لیے ایک پراکسی سرور استعمال کیا ہے۔
مودی حکومت نے کشمیر کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی انٹرنیٹ پر جزوی پابندیاں لگائی ہیں۔ حال ہی میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف بڑھتے ہوئے مظاہروں کے دوران دارالحکومت نئی دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں انٹرنیٹ تک رسائی پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
انٹرنیٹ ایڈووکیسی گروپ ’ایکسیس ناؤ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2018 میں بھارت انٹرنیٹ کی بندش میں دنیا میں سب سے اوپر رہا ہے جو دنیا بھر میں ریکارڈ کی گئی کل بندشوں کا 67 فیصد ہے۔
جموں و کشمیر ٹیلی کام کے ایک عہدے دار نے روئٹرز کو بتایا کہ سافٹ ویئر انجینیئرز کی ٹیمیں کشمیر میں وی پی این کے استعمال میں خلل ڈالنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ’یہ ایک جاری عمل ہے۔ ہم نے کچھ وی پی اینز کو بلاک کیا ہے تاہم وہ مزید وی پی این کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں۔ یہ بلی اور چوہے کے کھیل کی طرح ہے۔‘