’میں بھارت صرف اپنے قریبی رشتہ داروں اور کچھ پرانے دوستوں سے ملنے گئی تھی، جہاں میرا قیام صرف 24 گھنٹوں کے لیے تھا کیونکہ اگلے دن مجھے اسلام آباد کے لیے روانہ ہونا تھا جہاں سے مجھے اپنے پارلیمنٹری وفد کے ساتھ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کرنا تھا، مگر بد قسمتی یہ ہوئی کہ مجھے دہلی ایئر پورٹ پر ہی روک لیا گیا۔‘
یہ کہنا تھا برٹش پارلیمنٹری گروپ کے وفد کی چیئر پرسن ڈیبی ابراہمس کا، جنہیں پیر کو دہلی ایئرپورٹ سے بھارتی حکام نے واپس دبئی ڈی پورٹ کردیا۔
ڈیبی ابراہمس کا کہنا تھا کہ ان کو کشمیری عوام کے حقوق پر بات کرنے کی وجہ سے بھارت میں قیام کرنے سے روک دیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں اپنی آواز پارلیمنٹ میں اٹھاؤں گی کہ ہمیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کروایا جائے۔ میں نے برٹش پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کشمیر پاور گروپ سے بھی درخواست کردی ہے کہ ہمیں بھارت، کشمیر اور لائن آف کنٹرول کا دورہ کروایا جائے اور مجھے امید ہے کہ اگر مجھے اجازت ملی تو میں جلد ہی اپنے وفد کے ہمراہ بھارت اور کشمیر کا دورہ کروں گی۔‘
بھارت کی جانب سے برطانیہ کے شہریوں اور پارلیمنٹری وفد کے لیے ای ویزہ کی سہولت نہ ہونے پر ڈیبی ابراہمس کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بزنس ویزہ تھا جو بھارتی سفارتخانے نے انہیں گذشتہ سال اکتوبر میں ایک سال کے لیے جاری کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیبی نے بھارت سے نکالے جانے پر بتایا کہ ’ہمارے وفد نے طے کیا ہے کہ اس واقعے پر برٹش پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ہوئے بریف کیا جائے گا اور ان وجوہات کا تعین کیا جائے گا جو ان کو بھارت سے ڈی پورٹ کیے جانے کی بنیاد تھیں۔‘
’ہمیں بھارت سے نکالے جانے پر نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، تاہم اسلام آباد میں پاکستانیوں کے زبردست استقبال نے اس برے واقعے کی شرمندگی کافی کم کردی ہے، جس کے لیے میں اور میرا وفد پاکستانیوں کے انتہائی مشکور ہیں۔‘
ڈببی نے مزید کہا: ’ہم پاکستانی حکومت کے انتہائی مشکور ہیں جن کی مدد اور تعاون سے ہمیں نہ صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پناہ گزین اور کشمیری طلبہ سے ملنے کا موقع ملا بلکہ ہم نے ان سے بات چیت بھی کی۔ گو کہ ہمارے وفد کا دورہ مختصر وقت کے لیے تھا لیکن پھر بھی ہمیں بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تفصیل سے پتہ چلا اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کشمیریوں کے حقوق کے لیے صرف برٹش پارلیمنٹ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں انسانی حقوق کے لیے کام کیا جاتا ہے وہاں پر کشمیریوں کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہمیں کشمیریوں کے حقوق پر کافی تحفظات ہیں اور یہ تحفظات صرف اس لیے نہیں ہیں کہ میرے حلقے کے زیادہ تر لوگوں کا تعلق کشمیر سے ہے بلکہ اس لیے بھی ہیں کہ انسانی حقوق کا معاملہ میرے دل کے انتہائی قریب ہے۔‘
ڈیبی نے کہا: ’اگر یہ میرے حلقے کے لوگوں کا معاملہ اور مسئلہ ہے تو میں نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ انتخابات کے بعد ہماری حکومت کا وفد کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھارت، پاکستان اور لائن آف کنٹرول کا دورہ ضرور کرے گا اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے بھرپور کام بھی کیا جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’موجودہ صورت حال میں سرحد کے دونوں طرف جو ٹینشن بڑھ چکی ہے ہمیں اس پر بھی بہت تشویش ہے، چونکہ میں برطانیہ میں سیاست کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کام کرتی ہوں اور میرے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مجھے سیاست میں نہیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں میں ہونا چاہیے مگر میرا خیال ہے کہ میں سیاست میں رہ کر انسانی حقوق کے لیے بہتر کام کر سکتی ہوں۔‘
’کشمیر کا مسئلہ صرف میرے لیے ہی نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے لمحہ فکریہ تھا۔ جس طرح کشمیری عوام کے انسانی حقوق سلب کیے گئے ہیں، ہمارا وفد انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر دنیا بھر میں آواز اٹھاتا رہے گا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سرحدوں پر فوجی آبزرورز اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو بھیجا جائے جو کشمیری عوام سے بات چیت بھی کرسکیں۔‘
اس سوال پر کہ آپ کشمیر کے لیے تو بات کر رہی ہیں، برطانوی عوام اور اپنی حکومت کے بارے میں کوئی بات کیوں نہیں کر رہیں؟ ڈیبی ابراہمس کا کہنا تھا: ’یہ درست نہیں ہے۔ میں ہر جگہ اپنی حکومت کی نمائندگی کرتی ہوں اور وطن واپسی پر میں پارلیمنٹ میں اپنے اس دورے کے حوالے سے سب کو بریفنگ بھی دوں گی۔‘