افغانستان میں طالبان اسلامی تحریک کے سابق سفارت کار ملا عبدالسلام ضعیف نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ طالبان کا معاہدہ ان کی بڑی کامیابی ہے کیونکہ وہ اپنی امارت (حکومت) کے دعوے سے دستبردار نہیں ہوئے۔
دوحہ، قطر میں انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں طالبان دورہِ حکومت کے اسلام آباد میں سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کا کہنا تھا کہ طالبان نے اب تک جو بات چیت کی ہے وہ افغانستان اسلامی امارت کے نام سے کی ہے اور جو معاہدہ ہو رہا ہے وہ بھی اسی نام سے ہو گا۔
’طالبان اپنی امارت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ جب وہ امارت پر ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری کسی حکومت کا وجود نہیں مان سکتے۔‘
دوحہ میں اپنی گذشتہ آٹھ برسوں سے مقیم رہائش گاہ پر انٹرویو میں ان کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کوئی شرط امریکہ کے ساتھ معاہدے میں شامل نہیں۔ ’یہ مسئلہ قومی افغان ڈائیلاگ کے دوران حل ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس کا حل یہی ہے کہ افغانستان میں ایک قومی نظام پر بات ہو نہ کہ ایک دوسرے کو تسلیم کرنے پر۔‘
طالبان کے 53 سالہ سابق سفارت کار کا، جنہیں پاکستان نے 2001 میں اسلام آباد میں سفارتی قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کر دیا تھا، کہنا تھا کہ یہ امن معاہدہ طالبان کی سوچ میں تبدیلی نہیں بلکہ امریکہ کی سوچ میں تبدیلی سے ممکن ہوا۔
’دراصل 2001 میں امریکہ نے افغانستان میں جو لڑائی شروع کی اس کا انتخاب افغانستان کے لوگوں یا طالبان نے نہیں کیا تھا۔ وہ لڑائی افغانستان پر مسلط کی گئی تھی۔
’امریکہ نے پوری طاقت، غرور، دنیا اور پڑوسیوں کی مدد سے افغانستان پر حملہ کیا اور افغانستان آیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ طالبان نے ہار مانی بلکہ امریکہ نے ہار مانی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 2006 تک امریکہ اسی غرور میں مبتلا تھا، البتہ 2006 کے بعد امریکہ نے محسوس کیا کہ افغانستان میں اس کے مقابلے میں بڑی مزاحمت پیدا ہو گئی ہے جو دن بدن بڑھ رہی ہے۔
’2008 سے امریکہ اور دنیا کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہوئی کہ افغانستان کو طاقت سے نہیں چلایا جا سکتا بلکہ ایک سیاسی عمل کی ضرورت ہے۔
’2008 کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا کہ طالبان کے لیے ایک سیاسی چینل پیدا کیا گیا اور یہ کہ یہ کہاں ہو گا؟ کس طرح ہو گا اور طالبان سے بات چیت کس طرح ہو گی؟
’اس سلسلے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا اور پاکستان کو کردار ادا کرنے کا کہا گیا لیکن طالبان نے وہ سب کچھ اس طرح نہیں مانا جس طرح امریکہ چاہتا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان جنگجوؤں پر کیا اس معاہدے کا کوئی منفی یا مثبت اثر ہو گا؟ کیا وہ سب اس کی حمایت کرتے ہیں؟ اس بارے میں سابق طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ طالبان کے متعلق بہت منفی تاثر پیش کیا گیا کہ ان کے درمیان اس معاہدے سے متعلق ہم آہنگی نہیں۔
’یعنی قیادت اور جنگجوؤں یا قیادت اور کمانڈروں یا سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی نہیں اور اسی وجہ سے جنگ بندی کا وقت، جس کا جعمے کو آخری دن رکھا گیا ہے میرے خیال میں یہ بہت موثر رہا۔
’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طالبان کی آپس میں پوری ہم آہنگی موجود ہے۔ میرے خیال میں ایک ہفتے کا پرامن گزر جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ایسا کوئی خدشہ موجود نہیں۔‘
افغان قہوے اور خشک میوے سے میزبانی کرتے ہوئے ملا ضعیف نے بتایا کہ اب ان کے طالبان سے رابطے نہیں ہیں۔ وہ افغانستان میں بھی اکثر وقت گزارتے ہیں اور وہاں چند نجی تعلیمی منصوبے چلا رہے ہیں۔ دوحہ میں ان کے دو بیٹے کاروبار کر رہے ہیں۔
ان سے ایک اہم سوال پوچھا کہ کیا یہ معاہدہ چل پائے گا؟ کیا معاہدے کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں ان کے مطابق کیا طالبان کے لیے ان شرائط کو ماننا آسان ہو گا؟ تو ان کا جواب تھا کہ طالبان کے لیے شرائط سخت نہیں ہیں۔
’ماسوائے اس کے کہ افغانستان کا مسئلہ سیاسی بات چیت کے ذریعے حل ہو۔ طالبان نہیں چاہتے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے نکلنے کے بعد مجاہدین والا تجربہ دہرایا جائے۔
’طالبان چاہتے ہیں کہ جنگ کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل شروع ہو اور یہ صلح اور اتفاق سے ہی ممکن ہے۔ طالبان کی تقریباً تمام شرائط مانی گئی ہیں۔
’امریکہ کی شرائط کچھ ایسی ہیں کہ افغانستان افغانوں کا ہے اور کسی کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغان بھی یہی چاہتے ہیں۔ اگرچہ ایسا اس سے قبل ہو چکا ہے لیکن مستقبل میں افغانستان صرف افغانوں کا ہو گا اور کسی اور کا نہیں ہو گا۔ یہاں کوئی دخل اندازی نہیں کر سکے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان کسی پڑوسی یا کسی اور کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔ ’اس میں ہم افغانستان کی بہتری دیکھتے ہیں۔ امریکیوں نے اپنی بعض شرائط منوانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانی گئیں۔ امریکیوں نے مان لیا ہے کہ وہ تقریباً 14 ماہ میں افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائیں گے، جو ایک اچھی بات ہے۔‘
دوحہ میں افغانستان میں قیام امن کے لیے تاریخی معاہدے پر آج مقامی وقت کے مطاقب چار بجے دستخط ہونے ہیں، جس کی تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ امریکہ نے کہا ہے کہ ان کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شریک ہوں گے۔ تاہم دونوں فریقین نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ ان کی جانب سے کون دستخط کرے گا۔
ملا ضعیف سے پوچھا گیا کہ معاہدے میں ایک شرط یہ ہے کہ طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ طالبان ہمیشہ اس سے انکار کرتے رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ شرط اس معاہدے میں نہیں۔ یہ شرط نہیں ہے کہ
طالبان صرف افغانستان کی حکومت سے مذاکرات کریں گے۔ ہاں یہ مانا گیا ہے کہ افغانوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ ’یہی وہ مشکل کام ہو گا جس کا طالبان کو سامنا ہو گا۔ معاہدے کے کچھ روز بعد افغان حکومت کو بھی اس مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ طالبان نے اب تک جو بات چیت کی ہے وہ افغانستان اسلامی امارت کے نام سے کی ہے اور جو معاہدہ ہو رہا ہے، وہ بھی اسی نام سے ہو گا۔
’طالبان اپنی امارت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ جب وہ امارت پر ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری کسی حکومت کا وجود نہیں مان سکتے۔ یہ مسئلہ افغان ڈائیلاگ کے دوران حل ہو سکتا ہے۔‘
دوحہ میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان تحریک کے رہنما اور حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن انس حقانی کا کہنا ہے کہ ’ہماری جانب سے امریکہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے اپنے عقیدے کے مطابق ہمیشہ اپنے قول پر عمل کیا ہے۔ ماضی میں بھی اور اب بھی بار بار مخالفت ہوئی ہے۔‘
ملا ضعیف سے جب طالبان قیدیوں کی تعداد معلوم کی گئی، جن کی رہائی معاہدے کا بظاہر ایک اہم نکتہ ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے نام پر افغانستان میں 40 ہزار قیدی ہیں لیکن دراصل 15، 16 ہزار ہی ہیں۔
کیا ان تمام کی رہائی ممکن ہو پائے گی تو ان کا جواب تھا کہ طالبان نے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ اٹھایا ہے۔ اگر انہیں رہائی دینا امریکہ کے بس میں نہیں ہے تو امریکہ کس طرح معاہدے میں یہ بات مان رہا ہے؟ پہلی بات۔
’دوسرا یہ کہ آپ نے دیکھا کہ انس حقانی کی رہائی کے متعلق بھی انہوں نے کہا کہ یہ افغان حکومت کر سکتی ہے لیکن بعد میں وہ رہا ہو گئے۔
’افغانستان میں تقریباً 40 ہزار قیدی ہیں۔ ان میں سے تین چوتھائی امریکیوں نے گرفتار کیے ہیں۔ اگر امریکہ کہتا ہے کہ یہ افغان حکومت کا مسئلہ ہے تو گرفتاریوں میں کیوں شامل رہا؟ جب کسی کو کوئی گرفتار کر کے جیل میں ڈالتا ہے تو انہیں آزاد کرنے کا حق بھی وہ ہی رکھتے ہیں۔‘
ملا ضعیف سے آخری سوال یہی تھا کہ اگر افغانستان میں قومی حکومت بنتی ہے تو کیا افغان ماضی کی غلطیوں کو دہرائیں گے یا اچھے طریقے سے حکومت چلائیں گے؟
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن عقل مند وہ ہوتے ہیں جو انہیں مانیں اور دہرانے سے گریز کریں۔
’میرے خیال میں طالبان تحریک کے آغاز اور آج میں فرق یہ ہے کہ طالبان کے علم میں تبدیلی آئی ہے۔ طالبان کی سفارت کاری اور تجربے میں فرق آیا ہے۔ اب طالبان کا علم، سفارت کاری اور تجربہ بین الاقوامی ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت مثبت ثابت ہو گا۔‘