ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک شخص جو ایک آنکھ سے نابینا تھا، اسے کسی نے پوچھا کہ اگر تمہیں یقین ہو کہ کوئی لمحہ دعا کی قبولیت کا ہے اور خدا اس لمحے میں تمہاری دعا نہیں ٹالے گا تو تم کیا مانگو گے؟ جناب جھٹ سے بولے ’یہی کہ اگر میں ایک آنکھ سے نابینا ہوں تو میرا ہمسایہ دونوں آنکھوں سے نابینا ہو جائے۔‘
کچھ ایسا ہی حال ہمارے ہمسائے ملک بھارت کا ہے جس نے سالہا سال محض اس امید پر افغانستان میں بدامنی کو بڑھاوا دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا کہ ایک نہ ایک دن پاکستان اس آگ کی لپیٹ میں آئے ہی آئے۔
اگرچہ پاکستان پچھلے 20 سال افغانستان میں جاری جنگ کی بدولت خاطر خواہ جانی و مالی نقصان سے دو چار ہوا لیکن پچھلے 18 ماہ میں پاکستان کی بہترین سفارت کاری نے عالمی طاقتوں کی نظر میں پاکستان کا تاثر یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ وہ امریکہ جو پاکستان کو کبھی برابری کی نظر سے نہیں دیکھتا تھا، آج بھارت میں کھڑے ہو کر پاکستان کے گن گاتا ہے اور امریکہ پاکستان دوستی کا پرچار کر کے مودی جی کی چاۓ کا مزہ دوبالا کرتا ہے۔
وہ امریکہ جو پاکستان کو رعونت سے Do More کہتا تھا، خدا کی شان، آج افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے لیے پاکستان کے تعاون کا خواہاں ہے۔ جس پر پاکستان نے بلاتامل اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے دونوں فریقین کو مفاہمتی میز پر لا بٹھایا۔ دیر آید، درست آید!
29 فروری، 2020 تاریخ کی کتاب میں ایک خوشگوار یاد بن کر رقم ہو گیا جب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ’امن معاہدہ‘ طے پا گیا اور 20 سال کی لاحاصل جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ تمام عناصر جو دو دہائیاں اربوں روپیہ لٹا کر اس جنگ کو بڑھاوا دیتے رہے اور امریکہ کی خوشامد میں مگن رہے، وہ منظر سے اپنا سا منہ لے کر غائب ہو گئے اور وہ پاکستان جسے نشانہ بنانے کے لیے افغانستان پر محنت کی جا رہی تھی، عالمی طاقتوں نے اسی سے منصفی چاہی۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
اس 20 سالہ کشیدگی کی اگر کسی شخص نے مسلسل کھل کر مخالفت کی اور امریکہ کو افغان طالبان سے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی ترغیب دی، تو وہ ہیں پاکستان کے موجودہ وزیراعظم، عمران خان!
اس معاملے پر کھل کر یہ بیانیہ رکھنے پر عمران خان کو ناقدین کی جانب سے کیا کچھ نہ کہا گیا، کسی نے طالبان خان کہا تو کسی نے طالبان کا ترجمان۔
امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پاکستان میں موجود ایک مخصوص دانشور طبقہ ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوا کرتے ہیں۔ جہاں ہوا کا رخ دیکھا، وہیں دوڑ لیے۔ ان کو پہچاننے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کو پاکستان کی ریاست کے ہر فیصلے سے اختلاف ہوگا۔ جو عقلمندانہ مشورہ آپ انہیں اردو میں دیں گے یہ اسے ہیچ گردانیں گے لیکن اگر انہیں وہی مشورہ انگریزی زبان میں دیا جائے تو جھٹ سے آمین کہیں گے۔
تاریخ پڑھنے کا رواج ہمارے ہاں بتدریج کم ہوتا چلا گیا ورنہ ریاست پاکستان اور عمران خان کو پچھلے 20 سال طالبان کا واحد ہمدرد کہنے والے ضرور جانتے کہ امریکہ کے سب سے نامور اخبار نیو یارک ٹائمز نے حال ہی میں افغان طالبان کے ڈپٹی چیف سراج الدین حقانی کا مضمون چھاپا، جس میں انہوں نے کھل کر طالبان کے مطالبات کا ذکر کیا۔ سراج الدین حقانی کے والد، جلال الدین حقانی اپنے وقت کے بہت بڑے افغان لیڈر گزرے ہیں، جن کا استقبال امریکی وائٹ ہاؤس میں اس وقت کے امریکی صدر، ریگن، خود کرتے تھے۔
پاکستان نے تو نہ کبھی طالبان کو ریاستی مہمان کا درجہ دے کر مدعو کیا، نہ کبھی طالبان کے مطالبات کو اپنے نامور اخبارات میں جگہ دی۔ لیکن یہ بات آپ کبھی ہمارے دانشور حضرات سے نہیں سنیں گے اور اب پچھلے 24 گھنٹے سے مذکورہ بالا ساتھی بالکل خاموش ہیں۔ باوجود اس کے کہ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ امن معاہدہ دونوں فریقین کی مرضی سے ہو رہا ہے، لیکن سوگ کا ایسا عالَم ہے کہ الامان۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں بحیثیت پاکستانی یہ سمجھتی ہوں کہ ہمیں اب گزشتہ 72 سالہ غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس انا کی جنگ سے کیا حاصل کہ جو انسان کو اپنے ہی ملک کی کامیابی پر کھل کر خوش بھی نہ ہونے دے۔ آج امریکہ دو دہائیوں کی غیرمنتقی اور لاحاصل جنگ کے بعد بھی مذاکرات کرنے پر مجبور ہے، وہی مذاکرات جو پاکستان کہتا رہا کہ فوراً کیجیے، یہ پاکستان کے بیانیے کی فتح ہے۔ اس پر یہ سوچنا کہ یہ تو امریکہ نے عمران خان کے مشورے پر عمل کر لیا ہے اور اس پر خوشی کا اظہار اپنی انا کی شکست ہے۔ تو یاد رکھیے! انا کی جنگ میں شکست سب کی ہوتی ہے۔ یہ وقت یکجا ہو کر ایک ملک، ایک قوم بن کر دنیا کو بتانے کا ہے کہ ہم ایک ہیں اور آج ہمارا دن ہے، پاکستان کا دن ہے۔ خطے میں امن کی بنیاد رکھے جانے سے پاکستان کے دشمنوں کی سازشیں زمیں بوس ہو گئیں۔ چھوڑیے انا کی جنگ اور تھام لیجئے سبز ہلالی پرچم اور بتا دیجیے دنیا کو:
ہم تو مٹ جائیں گے اے ارضِِِ وطن لیکن،
تم کو زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک