امریکہ کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے اعلان اور امن معاہدے کے بعد کیا طالبان کے پاس مزید لڑنے اور پرتشدد کارروائیوں کا جواز رہ جاتا ہے؟ امریکی حکام اور افغانستان امور کے ماہر اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔
طالبان نے بھی سات روز تک پرتشدد کارروائیوں کو روک کر ثابت کیا کہ وہ مزید لڑنا نہیں چاہتے، لیکن اپنے وجود کے سب سے اہم ترین پہلو اور ہتھیار یعنی جنگ کو کیا وہ خیرباد کہنے کے لیے تیار ہوں گے؟ کیا انہوں نے سیاسی طور پر اتنی کامیابی اور حیثیت حاصل کر لی ہے کہ اب مزید لڑنا ان کے لیے سود مند نہیں رہا؟
افغان طالبان کے بیانیے کا سب سے بڑا اور پہلا نکتہ غیر ملکی افواج کا انخلا رہا ہے۔ اب جبکہ وہ جانے کو تیار ہو گئے ہیں، ٹائم ٹیبل بھی بتا دیا گیا ہے۔ کیا اب طالبان کا دوبارہ ہتھیار اٹھانے کا امکان نظر آتا ہے؟
اس حوالے سے طالبان تحریک کے ایک سابق رہنما کا کہنا ہے کہ شریعت کے اعتبار سے بھی ایک مرتبہ جب امریکی جانا شروع کر دیں گے تو اس اسلامی تحریک کے پاس لڑنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔
طالبان تحریک کے سینیئر رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کوئی شک نہیں کہ جب غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ دیں گی، یہاں سے باہر نکل جائیں گی اور دوبارہ ہمارے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیں گی تو جہاد ختم ہو جائے گا اور ہم افغانستان میں پرامن زندگی جیئیں گے۔‘
افغانستان امور پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر بارنٹ روبن کہتے ہیں کہ طالبان کے بارے میں تمام منفی پروپیگنڈا کہ وہ انتہا پسند ہیں اور القاعدہ کی طرز کی تحریک ہیں اپنی جگہ لیکن ان کے بارے میں ایک بات واضح ہے کہ وہ تکفیری نہیں ہیں۔ ’وہ حنفی مسلمان ہیں اور ان کا جہاد دفاعی جہاد ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جہاد کا جواز غیرملکی قبضہ ہے۔ ’غیر ملکی قبضے کے خاتمے کہ بعد اگر وہ لڑتے ہیں تو وہ سیاسی مقاصد کے لیے ہے، جہاد کے لیے نہیں۔‘
ویسے بھی افغان جنگ میں کئی برسوں سے ایک تعطل سا آیا ہوا ہے۔ اگرچہ طالبان کے کنٹرول میں بڑے علاقے ہیں لیکن وہ بڑے شہری علاقوں پر قبضہ کرنے سے قاصر ہیں۔ امریکہ اور طالبان دونوں یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ دونوں مکمل جنگی فتح حاصل نہیں کرسکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موجودہ حالات میں ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز نے غیرمعینہ مدت کے لیے طالبان کے خلاف کارروائیاں روکنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس سے قیام امن کی کوششوں کو اعتماد ملنے کی توقع ہے۔
29 فروری کو دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کی شق نمبر 4 کے مطابق مستقل جنگ بندی تمام افغانوں کے درمیان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل ہوگی لیکن اس میں کتنا وقت لگ سکتا ہے یہ ابھی واضح نہیں۔ ’ان مذاکرات کے شرکا مستقل اور جامع جنگ بندی کی تاریخ اور جزیات جس میں اس پر عمل درآمد کے لیے مشترکہ نظام شامل ہے، پر بات کریں گے اور اس کا اعلان افغانستان کے مستقبل کے سیاسی روڈمیپ کے معاہدے کے وقت کیا جائے گا۔‘
ابھی معلوم نہیں کہ سیاسی روڈمیپ کتنا وقت لے گا لہذا اس وقت تک مستقل جنگ بندی کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔
طالبان کے عسکری کمیشن کی جانب سے ایک غیرمصدقہ حکم نامہ سوشل میڈیا پر پہلے ہی گردش کر رہا ہے جس کے مطابق طالبان جنگجوؤں کو دوبارہ حملے شروع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ طالبان نے اس اعلامیے کی ابھی تک باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے تاہم اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے مخالفین اسے توڑنے کی کوششوں میں جت گئے ہیں۔
اس جنگ بندی کو جلد توڑنے کے خواہش مند خود طالبان میں شامل بعض لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو مذہبی سے زیادہ ذاتی وجوہات کی بنا پر لڑ رہے تھے۔ ان میں سے کئی کے رشتہ دار مارے گئے ہیں یا گرفتار ہیں اور ان کے گھر بار کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
پھر جنگ سے جڑے کاروبار والوں کے لیے بھی اس کی بندش فائدہ مند نہیں۔ خود کو دولت اسلامیہ (داعش) کہلوانے جیسی دیگر شدت پسند تنظیمیں بھی اپنے مخالفین کو لڑتے رہنا دیکھنا چاہتی ہوں گی۔
افغانستان میں منشیات کا مافیا بھی کافی سرگرم رہا ہے۔ امریکہ الزام عائد کرتا ہے کہ بعض طالبان عناصر بھی اس کاروبار میں ملوث ہیں اور ان کو بھی امن سوٹ نہیں کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عارضی یا مستقل جنگ بندی کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں، لیکن خود طالبان یا اس کے اندر دھڑے بھی کوئی جواز تلاش کرکے دوبارہ ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔
افغانستان میں گرفتار طالبان اسلامی تحریک کے جنگجوؤں کی تعداد واضح نہیں۔ سابق طالبان رہنما ملا عبدالسلام ضیعف کے مطابق طالب ہونے کے شک میں 40 ہزار سے زائد افراد قید ہیں۔ لیکن اس میں سے ان کی درست تعداد 15، 16 ہزار تک کی ہوگی۔
معاہدے کے بعد طالبان کے پیدل سپاہی پہلے ہی افغان جیلوں اور سڑکوں پر روایتی رقص کرکے خوشی منا رہے ہیں۔ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے علاوہ ان کی نظریں آئندہ 135 روز میں امریکی فوجیوں کی تعداد 12000 سے کم کرکے 8600 تک لانے کی بات پر بھی مرکوز ہیں، اس دوران امریکہ اور ان کے اتحادیوں کو پانچ جنگی اڈے بھی خالی کرنے ہیں۔