پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اکثر و بیشتر اپنے بیانات کی وجہ سے کسی نہ کسی سینئر سیاستدان کو ’ناراض‘ کر بیٹھتے ہیں اور اب ان کا ’ٹاکرا‘ ہوا ہے وفاقی وزیر خزانہ اور سینئر پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کے ساتھ، جہاں دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر خوب ذاتی حملے کیے گئے۔
ہوا کچھ یوں کہ حال ہی میں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن نہ کرنے اور سیاستدانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ ’اچھے اور برے طالبان، پنجابی طالبان اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا کیا ہوا؟ ہم کب تک دنیا کو کالعدم تنظیموں کے بارے میں معذرتیں پیش کرتے رہیں گے؟‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’کالعدم تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کی پالیسی ختم ہونی چاہیے، ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خطرے سے جنگ کرنی ہوگی، کون سا خودمختار ملک ایسی تنظیموں کو برداشت کرتا ہے، پارلیمنٹ اور پاکستان کی یہ پالیسی نہیں ہونی چاہیے، ان کا ٹرائل کیوں نہیں کیا جاتا؟‘
چیئرمین پیپلز پارٹی نے ایوان میں یہ سوال بھی اٹھائے کہ ’ہم نیشنل ایکشن پلان پرکیوں بھرپورعملدرآمد نہیں کر رہے، نیز کالعدم تنظیموں پر جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی؟‘
بلاول کی اس تقریر کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر نے ان کی انگریزی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ معلوم نہیں بلاول کو اپنے زرداری ہونے پر کیوں شرمندگی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی انہیں یاد نہ دلائے کہ وہ زرداری ہیں، لیکن ہم تو انہیں زرداری ہی کہیں گے۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو نے دشمن کا بیانیہ قومی اسمبلی میں بیان کیا۔
اسد عمر کے اس بیان پر چیئرمین پیپلز پارٹی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’وزیر خزانہ نے میری تقریر کو ’ملک دشمن‘ قرار دیا، باوجود اس کہ میں نے جو کچھ کہا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس سے اتفاق کرتے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ وفاقی کابینہ ایک پیج پر نہیں ہے۔‘
چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ اسد عمر نے میری انگریزی پر بھی اعتراض کیا، جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی خود انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے وزیر خزانہ اسد عمر کے والد کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ جنرل عمر کی اولاد کسی کو ’غیرت‘ پر کس طرح لیکچر دے سکتی ہے؟
1971 کی جنگ کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے تشکیل دیئے گئے حمود الرحمٰن کمیشن میں اسد عمر کے والد ریٹائرڈ میجر جنرل غلام عمر کا نام بھی شامل تھا، جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے برطرف کرکے کچھ عرصے نظربند بھی رکھا۔
Finance min called my speech ‘mulk dushman’ even though foreign minister agreed with everything I said. So the cabinet is clearly not on the same page. He took issue with my English, even though FM spoke in English. General Umar’s offspring are in no position to lecture ghairat. pic.twitter.com/5mcXuAf9rv
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) March 7, 2019
دوسری جانب بلاول بھٹو زرداری نے ایک سرکاری حکم نامے کی تصویر بھی شیئر کی، جس میں اس بات کی ہدایت کی گئی تھی کہ سرکاری خط و کتابت میں وزیراعظم کا نام عمران احمد خان نیازی کی بجائے صرف عمران خان استعمال کیا جائے۔
اس طرح بلاول نے بظاہر وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے ان کے زرداری کہلائے جانے پر تنقید کا بھی جواب دے دیا۔