قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے چار روز بعد طالبان کے تازہ حملوں میں افغان سکیورٹی فورسز کے 20 اہلکار ہلاک ہو گئے جب کہ امریکی فوج نے بھی طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے جنوبی افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب چند گھنٹے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طالبان رہنماؤں کے درمیان براہ راست ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا اور دونوں فریقین نے تشدد میں کمی اور قیام امن کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ نے بدھ کو ایک ٹویٹ میں بتایا کہ یہ گیارہ روز بعد عسکریت پسندوں کے خلاف امریکہ کی پہلی کارروائی تھی۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کارروائی طالبان کی جانب سے صوبے ہلمند کے علاقے نہرِ سراج میں افغان فورسز کے خلاف حملے کا جواب دینے کے لیے کی گئی ہے۔
کرنل سونی لیگیٹ نے کہا: ’طالبان جنگجو افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملہ کر رہے تھے، حملے کو روکنے کے لیے یہ دفاعی کارروائی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن امن کے لیے پرعزم ہے لیکن انہوں نے دوحہ میں ہفتے کے روز ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے ’غیرضروری حملوں‘ کو روکنے اور وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب افغان حکومتی عہدیداروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ رات گئے سلسلہ وار حملوں میں طالبان نے کم از کم 20 افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو ہلاک کردیا۔
صوبائی کونسل کے رکن صفی اللہ امیری کے مطابق: ’طالبان جنگجوؤں نے گذشتہ رات قندوز صوبے کے ضلع امام صاحب میں کم سے کم تین فوجی چوکیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں کم از کم 10 فوجی اور چار پولیس مارے گئے۔‘
افغان وزارت دفاع کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرفرانسیسی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی جب کہ صوبائی پولیس کے ترجمان ہجرت اللہ اکبری نے بھی طالبان کے حملوں میں پولیس اہلکاروں کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔
منگل کی نصب شب کو اروزگان صوبے میں بھی باغیوں نے پولیس پر حملہ کیا۔
صوبائی گورنر کے ترجمان زرگئی عبادی نے اے ایف پی کو بتایا: ’بدقسمتی سے طالبان کے حملے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک اور سات زخمی ہوئے ہیں۔‘
قبل ازیں صدر ٹرمپ نے منگل کو طالبان کے رہنما سے براہ راست گفتگو کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میری طالبان رہنما سے بہت اچھی بات چیت ہوئی ہے۔‘
انہوں نے ملا برادر کا نام نہیں لیا لیکن ملا برادر ہی امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر نے بدھ کی سہ پہر پانچ بجے تقریباً 35 منٹ تک طالبان تحریک کے قطر میں سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ بات کی ہے۔ اس موقع پر امریکی صدر کے افغانستان سے متعلق خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد بھی موجود تھے۔ طالبان نے اس موقع پر ایک تصویر بھی جاری کی ہے۔
یہ امریکہ اور طالبان کی اعلیٰ ترین قیادت کے درمیان پہلا رابطہ قرار دیا گیا تھا۔
طالبان کے بیان کے مطابق ملا بردار نے اس موقعے پر واضح کیا کہ اگر امریکہ ان کے ساتھ معاہدے پر عمل کرتا ہے تو ان کے مستقبل میں مثبت دو طرفہ تعلقات قائم ہوں گے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد کے بعد امریکہ افغانستان میں تعمیر نو میں حصہ بھی لے گا۔