امریکی ایوان نمائندگان نے مسلمان خاتون رکن کانگریس الہان عمر کی جانب سے اسرائیل کے خلاف آواز اٹھائے جانے سے قطع نظر، یہود دشمنی اور دیگر طرح کی نفرت انگیزی کی مذمت میں ایک قرارداد منظور کرلی۔
ایوان کی جانب سے منظور کی گئی قرارداد میں یہود دشمنی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’تشدد کا نفرت انگیز اظہار قرار دیا گیا جو امریکیوں کی اقدار اور خواہشات کے منافی ہیں‘۔
اس قرارداد میں اسلامو فوبیا، مسلمانوں سے امتیازی سلوک اور تعصب کی بھی مذمت کی گئی۔
اس قرارداد کے حق میں جہاں کانگریس کے متعدد یہودی ارکان نے ووٹ دیے، وہیں اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹس کی جانب سے خاتون رکن کانگریس الہان عمر کے حالیہ بیانات کی وجہ سے اختلاف بھی دیکھنے میں آیا، جو گذشتہ برس کانگریس میں منتخب ہونے والی پہلی دو مسلمان خواتین میں سے ایک ہیں۔
الہان عمر گذشتہ دنوں اُس وقت خبروں کی زینت بنیں، جب ایک صحافی گلین گرین والڈ کی ایک ٹویٹ کے جواب میں دیے گئے ان کے ایک بیان کو یہود مخالف تصور کیا گیا تھا۔
گلین گرین والڈ نے ایوان نمائندگان کے سربراہ کیون میک کارتھی کے حوالے سے ایک ٹویٹ کی تھی، جنہوں نے اسرائیل پر تنقید کرنے پر الہان عمر اور دوسری کانگریس خاتون رکن کو سزا دینے کی دھمکی دی تھی۔
الہان عمر نے اس ٹویٹ کے جواب میں مشہور امریکی گلوکار پف ڈیڈی کے گانے کے بول لکھتے ہوئے کہا، ’یہ بینجمن کے بچے کے بارے میں ہے‘۔
واضح رہے کہ لفظ بینجمن ’100 ڈالرز بلز‘ کے لیے استعمال ہونے والا ایک عامیانہ لفظ ہے، جو اس پس منظر میں بولا گیا کہ یہودی صدیوں سے پیسے کے پیچھے مرتے ہیں۔
بعدازاں الہان عمر نے اپنے بیان پر معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہود دشمنی حقیقت ہے اور میں اُن یہودی اتحادیوں اور ساتھیوں کی شکرگزار ہوں جو مجھے یہود دشمنی کی تکلیف دہ تاریخ کے بارے میں بتا رہے ہیں۔
زیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ الہان عمر کو اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے امریکی پالیسیوں پر اسرائیل کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر تنقید کی تھی۔
37 سالہ صومالی نژاد امریکی شہری الہان عمر نے اپنے ایک بیان میں اسرائیل کی حمایت کو یہود دشمنی قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے ٹوئٹر پر امیریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خیال میں یہ کمیٹی امریکی سیاستدانوں کو اسرائیل کے حق میں کرنے کے لیے پیسے دیتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات پر گہری نظر رکھنے والوں کے خیال میں یہ تاریخ اور اسٹریٹجک تعلقات پر مبنی ہیں، جہاں امریکہ، اقوام متحدہ جیسے اداروں پر حملوں پر بھی اسرائیل کی حمایت کرتا آیا ہے۔
دوسری جانب ایک پہلو امریکہ میں انجیل کو ماننے والے مسیحیوں کی موجودگی بھی ہے، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی ہیں، جن کا ماننا ہے کہ جب یروشلم، اسرائیلیوں کو واپس مل جائے گا تو حضرت عیسیٰ واپس آجائیں گے۔
گذشتہ برس کیے گئے ایک سروے میں انجیل کو ماننے والے مسیحیوں کی نصف تعداد نے اسرائیل کی حمایت کی تھی، کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ یہ ان کے ’نبی‘ کی پیشگوئی کو ماننے کے لیے بہت اہم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الہان عمر کے اسرائیل کے اثرورسوخ اور اسرائیل کی حامی لابی سے متعلق دیے گئے بیان اور ایک دوسری مسلمان خاتون رکن کانگریس راشدہ طلائب کے بیانات کا بھی کافی چرچا رہا۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ صدر، ری پبلکنز اور متعدد ڈیموکریٹس کی جانب سے الہان عمر پر تنقید کے نشتر برسائے گئے، ایوان میں موجود ایک تھرڈ رینکنگ ری پبلکن رکن لز چینے نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ الہان عمر ’ایک نیچ، نفرت سے بھری، یہود دشمن اور اسرائیل مخالف متعصب‘ خاتون ہیں، تاہم کچھ ڈیموکریٹس نے ان کا دفاع بھی کیا۔
دوسری جانب برنی سینڈرز، کمالہ حارث اور الزبتھ وارن نے جہاں یہود دشمنی کی مذمت کی، وہیں انہوں نے اسرائیل سے متعلق امریکہ کی پالیسی پر مزید بحث و مباحثے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ اس سارے معاملے میں ڈیموکریٹس اسٹیبلشمنٹ اور اس کے نوجوان، ترقی پسند اراکین کے مابین اختلاف نظر آتا ہے، جن میں سے بہت سے لوگ اسرائیلیوں کے لیے امریکہ کی غیر منحصر حمایت سے پریشان ہیں۔
سپیکر نینسی پلوسی، جو کہ کھلے عام اسرائیل کا دفاع کرتی آئی ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کا نہیں خیال کہ الہان عمر کے بیانات کسی بھی طرح یہود دشمنی سے متعلق ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق نینسی پلوسی نے ایک ہفتہ وار نیوز کانفرنس کے دوران کہا، ’مجھے نہیں معلوم کہ الہان عمر اپنے حوالے سے کہی گئی لوگوں کی باتوں کو کیسے دیکھتی ہیں، تاہم میرا نہیں خیال ہے کہ ان کے بیانات کے پیچھے کسی بھی طرح یہود دشمنی کی نیت تھی۔‘