دنیا بھر میں خطرناک کرونا وائرس کی صورت حال کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا بے حد مشکل ہو سکتا ہے کہ آج کیا کیا جائے؟ کیا ہمیں مزید معلومات کا انتظارکرنا چاہیے یا آج ہی کچھ کیا جائے لیکن کیا؟
اس مضمون میں ہم نے کئی ذرائع سے اکٹھے کیے گئے بہت سے چارٹ، ڈیٹا اور ماڈلوں کی مدد سے درج ذیل نکات پر روشنی ڈالی ہے۔
- آپ کے علاقے میں کرونا وائرس کے کتنے کیس ہیں؟
- متاثرہ افراد کے مریض بننے کی صورت میں کیا ہو گا؟
- آپ کو کب اور کیا کرنا چاہیے؟
یہ مضمون پڑھنے کے بعد بہت سی باتیں آپ کے علم میں آ جائیں گی۔ کرونا وائرس تیزی کے ساتھ آپ کی جانب بڑھ رہا ہے یعنی پہلے آہستہ اور پھر اچانک حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ چند دنوں کی بات ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک یا دو ہفتے کی بات ہو۔
جب ایسا ہوگا تو آپ کے ملک میں صحت کے نظام پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ آپ کے ہم وطنوں کا علاج مکمل نہیں ہو پائے گا۔ محکمہ صحت کے کارکن متاثر ہوں گے بعض ہلاک بھی ہو جائیں گے۔ صحت کے کارکنوں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کون سے مریضوں کو آکسیجن ملے گی اور کون سا مریض مرے گا۔
اس صورت حال سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کل کی بجائے آج سے ہی سماجی سطح پر آپس میں فاصلہ بڑھایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی تعداد میں ممکن ہو لوگوں کو گھروں تک محدود کرنے کا عمل شروع کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بطور سیاست دان یا کیمونٹی لیڈر آپ کا اختیار اور ذمہ داری ہے کہ صورت حال کو خراب ہونے سے روکیں۔ آج آپ کو کئی طرح کے خوف ہوں گے۔ اگر میں ضرورت سے زیادہ ردعمل کا اظہار کروں گا تو کیا ہوگا؟ کیا لوگ میرے اوپر ہنسیں گے؟ کیا وہ مجھ پر غصہ کریں گے؟ کیا میں بےوقوف دکھائی دوں گا؟ کیا یہ انتظار کرنا بہتر ہو گا کہ دوسرے لوگ پہلے کوئی قدم اٹھائیں؟ کیا میں ملکی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچاؤں گا؟
لیکن دو سے چار ہفتے میں جب پوری دنیا لاک ڈاؤن ہو جائے گی۔ جب آپ فاصلہ بڑھانے کی حکمت عملی اپنا کر بہت سے جانیں بچا چکے ہوں گے تو لوگ آپ پر مزید تنقید نہیں کریں گے۔ وہ درست فیصلہ کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کریں گے۔
1۔ آپ کے علاقے میں کرونا وائرس کے کتنے کیس ہوں گے؟
ملک کے اعتبار سے اضافہ
چارٹ ایک: دنیا بھر میں کرونا وائرس کے کیسوں کی مجموعی تعداد۔
چین کے کرونا وائرس پر قابو پانے تک متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے بعد وائرس چین کی سرحد سے باہر نکل گیا اور یہ وبائی شکل اختیار کر گیا ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔چارٹ دو: چین سے باہر کرونا وائرس کے کیسوں کی مجموعی تعداد
تازہ صورت حال کی زیادہ تر ذمہ داری ایران اور جنوبی کوریا پر ہے۔
چارٹ تین: ملک کے اعتبار سے کرونا وائرس کے کیسز (چین شامل نہیں)
جنوبی کوریا، اٹلی اور چین میں کرونا وائرس کے کیسوں کی تعداد اتنی ہے کہ دوسرے ملکوں کی جانب دیکھنا مشکل ہے۔ ہمیں دائیں جانب نیچے کے کونے کو بڑا کر کے دیکھنا ہو گا۔
چارٹ چار: جنوبی کوریا، اٹلی، چین اور ایران کے علاوہ دیگر ممالک میں کرونا وائرس کے کیسز
درجنوں ممالک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کم ہے۔ ان میں زیادہ تر یورپی ملک شامل ہیں۔چارٹ پانچ: 3/5 اور 3/6 کے درمیان کرونا وائرس کے یومیہ پھیلاؤ کی شرح
اگر آپ اسی شرح رفتار سے کرونا وائرس کے پھیلاؤ جاری رکھتے ہیں تو اس صورت میں جو آپ کو ملے گا وہ یہ ہوگا۔چارٹ چھ: ایک ایک ملک کے اعتبار سے کرونا وائرس کے کیسوں کے بارے میں پیش گوئی (چین، جنوبی کوریا، اٹلی اور ایران کو چھوڑ کر)
اگر آپ سمجھنا چاہتے ہیں کہ کیا ہو گا یا اسے ہونے سے کیسے روکا جائے تو آپ کو ان ملکوں پر نظر ڈالنی ہے جو وائرس کے تجربے سے گزر چکے ہیں۔ ان ملکوں میں چین، سارس وائرس کے تجربے سے گزرنے والے مشرقی ملک اور اٹلی شامل ہیں۔چین
چارٹ سات: چینی صوبے ہیوبے میں پیش آنے والے واقعات کی ترتیب
یہ اہم ترین چارٹوں میں سے ایک ہے۔ اس میں موجود نارنجی رنگ کی لکیروں سے صوبہ ہیوبے میں کرونا وائرس کے کیسوں کی یومیہ بنیاد پر سرکاری اعداد وشمار کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس روز کتنے لوگوں کے وائرس میں مبتلا ہونے کی تشخیص ہوئی تھی۔ گرے رنگ کی لیکیریں یومیہ بنیادوں پر کرونا وائرس کے کیسوں کی حقیقی تعداد کو ظاہر کرتی ہیں۔ بیماریوں کے کنٹرول کے چینی مرکز کو یہ اعدادوشمار اس وقت پتہ چلے جب انہوں نے علامات ظاہر ہونے پر مریضوں سے سوالات کیے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس وقت حقیقت میں موجود ان کیسوں کا علم نہیں تھا۔ ہم ان کے بارے میں صرف پیچھے کی جانب جا کر جان سکتے ہیں۔ چینی حکام یہ نہیں جانتے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ کسی شخص میں ابھی ابھی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ انہیں اس وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہاں اس کے جسم میں وائرس کی تشخیص ہوتی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ نارنجی لکیریں آپ کو بتاتی ہیں کہ حکام کس بات سے واقف تھے اور بھوری لکیریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ حقیقت میں کیا ہو رہا تھا۔
21 جنوری کو کرونا وائرس کے نئے تشخیص شدہ کیسوں (نارنجی لکیریں) کی تعداد میں یک دم اضافہ ہوا یعنی ایک سو کے قریب کیس سامنے آئے۔ حقیقت میں اس روز نئے کیسوں کی تعداد 15 سو تھی جن میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا تھا لیکن حکام کو اس کا علم نہیں تھا۔ ان کے علم میں یہ تھا کہ اس نئی بیماری کے ایک سو نئے کیس اچانک سامنے آئے ہیں۔
دو دن بعد چینی حکام نے ووہان شہر کو بند کر دیا۔ اس موقعے پر ایک کمزور اندازے کے مطابق روزانہ چار سو افراد میں کرونا وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہو رہی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکام نے چار سو کی تعداد کو مدنظر رکھ کر شہر کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ حقیقت میں اس دن کرونا وائرس کے نئے کیسوں کی تعداد 25 سو تھی لیکن انہیں اس کا علم نہیں تھا۔
ووہان شہر بند ہونے کے بعد 23 جنوری تک آپ بھورے رنگ کے گراف پر نظر ڈال سکتے ہیں۔ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حقیقی کیس بے حد تیزی کے ساتھ بڑھ رہے تھے۔ جوں ہی ووہان کو بند کیا گیا کیسوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو گئی۔
24 جنوری کو جب مزید 15 شہر بند کیے گئے تو کرونا وائرس کے حقیقی کیسوں (پھر سے بھوری لکیر) میں اضافہ بھی بند ہو گیا۔ دو دن بعد کیسوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ایک مقام پر رک گئی اور اس کے بعد سے اس میں کمی آئی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نارنجی رنگ (سرکاری طور) کیسوں کی تعداد میں اب تک تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ مزید 12 دن تک ایسا دکھائی دیا کہ مریضوں میں سخت علامات سامنے آ رہی ہیں اور وہ زیادہ تعداد میں ڈاکٹروں کے پاس جا رہے ہیں اور ان کی شناخت کرنے والا نظام پائیدار تھا۔
حقیقی کیسوں کا یہ سرکاری تصور اہم ہے۔ اسے ہمیں اگلے مرحلے کے لیے ذہن میں رکھنا ہو گا۔ چین میں مرکزی حکومت نے دوسرے علاقوں کے ساتھ رابطہ کیا جس کی بدولت وہاں حکام نے فوری اور بھرپور اقدامات کیے جن کا نتیجہ اس طرح سامنے آیا۔
چارٹ نمبر آٹھ: کرونا وائرس کے کیس (اٹلی، ایران اور جنوبی کوریا کے مقابلے میں ہیوبے سے باہر چینی علاقے)
ہر سیدھی لکیر کرونا وائرس والا ایک چینی علاقہ ہے۔ ہر علاقے میں وائرس کے تیزی سے پھیلنے کا خطرہ موجود تھا لیکن جنوری کے آخر میں کیے گئے اقدامات کی بدولت وائرس کو پھیلنے سے پہلے ہی روک دیا گیا۔
اسی اثنا میں جنوبی کوریا، اٹلی اور ایران کے پاس ایک مہینہ تھا کہ وہ اس صورت حال سے سیکھتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان ملکوں میں چینی صوبے ہیوبے کی طرح اضافہ ہوا اور جنوری کے آخر تک یہ اضافہ چین کے ہر علاقے سے بڑھ گیا۔
چارٹ نو: چین سے باہر کرونا وائرس کے کیسوں کی مجموعی تعداد (وہ ملک جہاں سات مارچ کو کرونا وائرس کے کیسوں کی تعداد 50 سے زیادہ تھی)
نتیجہ: انتظار کرنے کی قیمتآج ہی فیصلہ کرنا خوف ناک محسوس ہو سکتا ہے لیکن آپ کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔
چارٹ 22: سماجی فاصلہ بڑھانے کے اقدامات کے ساتھ کرونا وائرس کے کیسوں کی صورت حال
یہ خیالی ماڈل مختلف گروپوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک گروپ فاصلہ نہیں بڑھاتا۔ دوسرا وبا پھوٹ پڑنے کے دن سے فاصلہ بڑھاتا ہے اور تیسرا پہلے ہی فاصلہ بڑھا دیتا ہے۔ یہ تمام اعدادوشمار مکمل طور پر خیالی ہیں (میں نے ان کا انتخاب جو ہیوبے میں ہوا اس کی مثال دینے کے لیے کیا ہے جہاں روزانہ تقریباً چھ ہزار کیس سامنے آئے جو ایک بدترین صورت حال تھی) یہ اعدادوشمار یہ بتانے کے لیے ہیں کہ ایسی صورت حال میں جب کوئی وبا تیزی سے پھیلنے لگتی ہے اور ایک ایک دن کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔
کرونا وائرس کے مجموعی کیسوں کے بارے میں کیا کہا جائے؟
چارٹ 23: سماجی فاصلے کے اقدامات کے ساتھ کرونا وائرس کے مجموعی کیس
اس خیالی ماڈل میں جو کسی حد تک ہیوبے جیسا لگتا ہے یعنی ایک دن کے انتظار کی وجہ سے کرونا وائرس کے کیسوں میں 40 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ اس لیے ایسا ممکن ہے کہ اگر ہیوبے کے حکام 23 جنوری کی بجائے 22 جنوری کو شہر بند کرنے کا اعلان کر دیتے تو اس سے کرونا وائرس کے کیسوں میں 20 ہزار کی نمایاں کمی ہوتی۔
یاد رکھیں یہ صرف متاثرہ افراد کی بات ہو رہی ہے۔ اموات کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہوتی کیونکہ صرف 40 فیصد براہ راست زیادہ اموات نہ ہوتیں۔ صحت کے نظام کی ناکامی کا تناسب بھی کہیں زیادہ ہوتا جس کا نتیجہ اموات کی شرح میں 10 گنا اضافہ ہوتا۔ اس لیے فاصلہ بڑھانے کے عمل میں ایک دن کے فرق سے بےتحاشہ اموات کو روکا جا سکتا ہے۔
کرونا وائرس بہت بڑا خطرہ ہے۔ ایک ایک دن اہم ہے۔ جب آپ فیصلہ کرنے میں ایک دن کی تاخیر کرتے ہیں تو شاید آپ محض چند کیس بڑھانے میں کردار ادا نہ کر رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے آپ کی کمیونٹی میں پہلے سے ہزاروں کیس موجود ہوں جن میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر ٹامس پویو نے میڈیم ڈاٹ کام کے لیے لکھی، جس کا کچھ حصہ شائع کیا گیا ہے۔