کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری (کو وڈ 19) بھی ایک قسم کا فلو ہی ہے، اس لیے اس کی علامات عام فلو سے ملتی جلتی ہیں۔ تاہم کچھ چیزیں مختلف بھی ہیں۔ ہم نیچے دونوں کی ایک جیسی اور مختلف علامات کا جائزہ لیں گے۔
اس فہرست کی تیاری کے لیے ہم نے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او)، بیماریوں سے بچاؤ کے امریکی ادارے (سی ڈی سی) اور برطانوی ادارۂ صحت (این ایچ ایس) کی فراہم کردہ معلومات سے مدد لی ہے۔
اشتراک
- دونوں بیماریاں چھوت چھات کی بیماریاں ہیں اور آسانی سے ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہو سکتی ہیں۔
- کھانسی
- بخار
- بدن میں درد
- نزلہ
- ناک بند
اختلاف
جو لوگ کو وڈ 19 متاثر ہوتے ہیں، ان میں 80 فیصد سے زیادہ میں اوپر والی معمولی علامات ہی ظاہر ہوتی ہیں، اور وہ بغیر کسی علاج کے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایک قلیل تعداد ایسی ہوتی ہے جن میں مرض بڑھ کر پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب کرونا کی علامات عام فلو سے مختلف ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایسی مختلف علامات مندرجہ ذیل ہیں:
- سانس لینے میں دشواری
عام طور پر کو وڈ 19 میں مبتلا ہونے کے پانچ سے دس دن کے اندر مریض کو سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پھیپھڑوں کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔
- چھاتی میں درد یا دباؤ کی کیفیت
اس علامت کا تعلق بھی پھیپھڑوں کے متاثر ہونے سے ہے۔
- چہرہ یا ہونٹ نیلے پڑ جانا
ایک بار پھر اس علامت کا مطلب یہ ہے کہ مریض کے پھیپھڑے اس حد تک متاثر ہو رہے ہیں کہ مریض کو کافی مقدار میں آکسیجن نہیں مل رہی۔
- عام فلو سردیاں ختم ہونے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ کم ہوتا جاتا ہے، اور آپ کو پتہ ہوتا ہے کہ کب اس کا زور ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔ کو وڈ 19 کے ساتھ ایسا نہیں، یہ چونکہ نیا وائرس ہے، اس لیے اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس پر گرمیوں کا اثر کس حد تک ہو گا۔
- عام فلو بچوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے اور زیادہ تر بچے ہی اسے بڑوں میں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر ابتدائی ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ کو وڈ 19 20 سال سے کم عمر افراد پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوتا۔
- فلو اور کو وڈ 19 کی علامات کی شدت کی شرح میں بھی فرق ہے۔
کو وڈ 19 کے 80 فیصد مریضوں میں یا تو سرے سے کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں، یا اگر ہوں بھی تو معمولی ہوتی ہیں۔
15 فیصد مریضوں میں شدید علامات ہوتی ہیں، جنہیں آکسیجن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، جب کہ پانچ فیصد مریض ایسے ہوتے ہیں جنہیں وینٹی لینٹر پر ڈالنا ضروری ہوتا ہے۔
فلو میں شدید متاثرین کی تعداد کہیں کم ہوتی ہے۔
فلو بچوں، حاملہ عورتوں، معمر اور پہلے سے بیمار افراد کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس کے مقابلے پر کو وڈ 19 معمر افراد پر زیادہ شدت سے حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پہلے سے بیمار لوگوں کو بھی خاص طور پر نشانہ بناتا ہے۔
دونوں بیماریوں کی شرحِ اموات میں بھی فرق ہے۔ فلو سے ہزار میں سے مریض ہلاک ہوتا ہے، جب کہ کرونا کی شرحِ اموات ایک فیصد سے لے کر تین فیصد تک ہے۔
ایک اور فرق یہ ہے کہ فلو کا ایک مریض اوسطاً 1.3 دوسرے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، جب کہ کرونا وائرس تین لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلو کی نسبت کرونا وائرس تقریباً ڈھائی گنا زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر کو کب دکھائیں؟
اگر آپ کو اوپر دی گئی مشترک علامات ہیں تو پھر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ گھر میں الگ تھلگ رہ کر اپنے بدن کے دفاعی نظام کو موقع دیں کہ وائرس کا مقابلہ کرے۔
البتہ اگر اوپر دی گئی مختلف علامات لاحق ہونا شروع ہو جائیں تو پھر ہسپتال کا رخ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہسپتال جانے سے پہلے ان سے فون پر رابطہ کر لیں کہ آپ ہسپتال آ رہے ہیں، تاکہ وہ پہلے سے انتظامات کر لیں۔
کرونا کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
وائرس کو جسم سے ختم کرنے کے لیے فی الحال کوئی دوا دستیاب نہیں ہے، نہ ہی اس کی کوئی ویکسین موجود ہے، اور ماہرین کے مطابق ویکسین بننے میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
البتہ علامات کا ضرور علاج ہو سکتا ہے۔ اگر بخار ہے تو اس کے لیے بخار کش دوائیں لی جا سکتی ہیں، کھانسی ہے تو شربت پی لیں، پھیپھڑے متاثر ہوں تو مریض کو آکسیجن لگائی جا سکتی ہے۔
یہ بیماری چونکہ وائرس سے ہوتی ہے، اس لیے اس پر اینٹی بایوٹک ادویات قطعاً بےاثر ہیں، کیوں وہ صرف بیکٹیریا کے خلاف عمل کرتی ہیں۔ اینٹی بایوٹک لینے سے آپ کو صرف سائیڈ ایفیکٹ ہی ہوں گے، کرونا وائرس محفوظ رہے گا۔