ایک سال قبل جاب تبدیل کرتے ہوئے میں نے بھی سوچا تھا اور اپنے آپ سے کہا تھا کہ ’کتنا مشکل ہوگا گھر سے کام کرنا؟‘ میں نے خود 27 سال تک دفتر سے کام کیا اور ملکی حالات کے باعث شاید ہی کُل ملا کر ایک نہیں تو دو ماہ گھر سے کام کیا ہوگا۔
اور اب جب کرونا وائرس نے پاکستان سمیت دنیا کے کے بیشتر ممالک کو متاثر کیا ہے تو دنیا بھر میں کمپنیاں اپنے ملازمین کو اپنے گھروں سے کام کرنے کا یا تو حکم دے چکی ہیں یا پھر اس حوالے سے سوچا جا رہا ہے۔
تو آپ میں سے کئی ایسے ہوں گے جو گھر سے کام کرنے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔
گھر سے کام کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ عام تاثر ہے۔ ایک سال میں، میں گھر سے کام کرنے یا ’ورک فرام ہوم‘ کا ماسٹر تو نہیں ہوا ہوں لیکن کچھ مفید مشورے ضرور دے سکتا ہوں۔
پاجامہ نہیں چلے گا
دفتر جانے کی سب سے بڑی کوفت کیا ہوتی ہے؟ تیار ہو کر دفتر جانا۔ اب جب ورک فرام ہوم کا موقع ملا ہے تو اس سے دفتر وقت پر پہنچنے کے لیے ایک یا آدھ گھنٹہ پہلے اٹھنے اور تیار ہونے کا جھنجھٹ ختم ہو گا۔ آپ گھر میں بیٹھے ہیں اور آس پاس گھر والوں کے علاوہ کوئی نہیں اس لیے جس حلیے میں سوئے اسی میں کام کرنے میں مشغول ہو گئے۔ لیکن ایسا آپ تین روز یا ایک ہفتہ کریں گے اور آٹھویں روز خود ہی محسوس کریں گے کہ آپ کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے اور آپ کام کے دوران سست روی کا شکار ہیں۔
اسی لیے گھر سے کام کرنے کے لیے آپ کو چاہیے کہ آپ اپنا کام شروع ہونے سے کافی دیر قبل اٹھیں نہائیں دھوئیں، ناشتہ کریں اور تیار ہو کر کام کرنے بیٹھیں تاکہ آپ جسمانی اور ذہنی طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
کونا پکڑ لیں
لیکن صرف تیار ہو کر بیٹھ کر کام کرنا ہی کافی نہیں ہے۔ میں شروع میں اپنے ٹی وی لاؤنج کے صوفے پر بیٹھ کر کام کرتا تھا۔ ایک تو صوفہ آرام دہ تھا اور پھر ٹی وی بھی موجود تھا۔ لیکن ایک ہی ہفتے میں جان گیا کہ لاؤنج میں بیٹھ کر کام کرنا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ یہ ایسی جگہ تھی جہاں اہل خانہ کے لوگ آ کر بیٹھتے، باتیں کرتے، ادھر ہی بیٹھ کر کھانے کا مینیو طے کیا جاتا اور پھر نوکر کو حکم صادر کیے جاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دفتر میں کام کرنے والوں کو آس پاس کی باتوں کی عادت ہوتی ہے لیکن ان باتوں میں آپ کی رائے یا اس بات کی توقع کہ آپ بھی بحث میں حصہ لیں، کی عادت نہیں ہوتی۔ اگر آپ گھر میں ایسی جگہ بیٹھ کر کام کرنے کا سوچ رہے ہیں جو ’دیوان عام‘ ہے تو اس فیصلے پر سنجیدگی سے نظرثانی کریں۔
یہ شاید زیادہ تر افراد کے لیے ممکن نہ ہو کہ آپ کے گھر میں سٹڈی روم ہو یا ایک علیحدہ کمرہ ہو۔ لیکن ایسی جگہ ضرور ہو گی جو بیچ چوراہے میں نہ ہو اور قدرے الگ تھلگ ہو اور یہی وہ جگہ ہے جہاں آپ بیٹھ کر ورک فرام ہوم کریں۔
’گھر سے کام‘، ’گھر کا کام‘ نہیں
تو آپ تیار بھی ہو گئے اور آپ نے کونا بھی پکڑ لیا۔ اب آپ نے اہل خانہ کو یہ بات باور کرانی ہے کہ اگرچہ آپ گھر پر ہیں لیکن آپ گھر پر نہیں بھی ہیں۔ یعنی کہ آپ دفتر کا کام کر رہے ہیں۔ آپ سب کو خاموش رہنے کے لیے نہیں کہہ سکتے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اس بات کی توقع نہ کی جائے کہ آپ روز مرہ کی باتوں اور کاموں میں حصے دار بنیں گے۔ آپ گھر پر ’گھر سے کام‘ کرنے کے لیے ہیں ’گھر کا کام‘ کرنے کے لیے نہیں ہیں۔
ہوا خوری اشد ضروری
ورک فرام ہوم کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ آٹھ گھنٹے تک کمپیوٹر کے سامنے براجمان رہیں۔ ایک گھنٹے کے بعد اپنی کمر سیدھی کرنے کے لیے اٹھنا ضروری ہے اور ممکن ہو تو مکان سے باہر جائیں۔ اگر آپ تمباکو نوشی کرتے ہیں تو کوشش کریں کہ دفتر کی طرح اندر نہیں بلکہ باہر نکل کر کریں۔ اس طرح آپ کمر کے ساتھ ساتھ ٹانگیں بھی سیدھی کر لیں گے اور تازہ ہوا بھی لے لیں گے۔ اور ہاں یہ وہ موقع ہے جب آپ گھر کا کام بھی کر سکتے ہیں جیسے کہ سبزی، روٹی، انڈے وغیرہ لانا۔
آپ نے اپنی جگہ بھی مختص کرلی اور گھر والے آپ کے کام میں خلل بھی نہیں ڈال رہے ہیں اور آپ ورک فرام ہوم کر رہے ہیں۔ لیکن اپنی نوکری کے گھنٹے پورے ہونے کے بعد بھی آپ گھر پر ہی ہیں۔
بیوی کی کوفت
آپ ہفتے میں پانچ یا چھ روز گھر سے کم از کم نو سے دس گھنٹے باہر ہوتے ہیں اور اس بات کی عادت آپ کو بھی پڑی ہوئی ہے اور آپ کے گھر والوں کو بھی۔ جب آپ بقایا 12 کی بجائے 24 گھنٹے ہی گھر پر ہوں گے تو جہاں اس سے آپ کو کوفت ہوگی اتنی ہی اگر زیادہ نہیں تو آپ کی بیوی کو ہوگی کیونکہ وہ بھی آپ کے ہر وقت گھر پر رہنے کی عادی نہیں۔
اس لیے بہتر ہے کہ اپنے دفتر کا کام ختم کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے ہی سہی لیکن گھر سے باہر ضرور نکلیں۔ جائیں دوستوں سے ملیں یا اپنے دفتر کے ساتھیوں ہی سے مل لیں۔ لیکن کرونا تو شاید اس قابل بھی نہ چھوڑے کہ گھر سے نکلا جائے۔ ایسی صورت میں گھر کے صحن یا بالکونی میں ہی سہی لیکن نکلیں ضرور اور کچھ وقت اکیلے اپنے ساتھ گزاریں، موسیقی سنیں یا دوستوں سے فون پر بات کریں لیکن اپنے لیے وقت نکالیں۔
ورزش
آپ میں سے زیادہ تر لوگوں کو شاید اس بات کا احساس نہ ہو کہ دفتر میں چاہے کرسی پر ہی بیٹھے رہتے ہوں لیکن چہل قدمی ضرور ہوتی ہے۔ کبھی ایک ساتھی کی میز پر تو کبھی باہر کسی دوست کے ساتھ۔ اس لیے ضروری ہے کہ دفتری کام سے پہلے یا پھر بعد میں ہلکی پھلکی ورزش ضرور کریں اور ویسے بھی ورزش سے قوت مدافعت بڑھتی ہے اور کرونا سے بچنے کے امکانات بھی۔
اور ہاں ایک آخری بات۔ گھر سے کام کرنے کا ایک بہت بڑا نقصان بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی بیوی یا اہل خانہ کو پتہ چل جاتا ہے کہ ابھی تک جو آپ دفتر سے گھر آ کر زیادہ کام کا رعب جھاڑتے تھے اس میں کتنی سچائی ہے۔
اس لیے مشورہ یہ ہے کہ چاہے کام نہ ہو، چاہے آپ نیٹ فلکس پر فلم یا یوٹیوب پر گانے ہی سن رہے ہوں، آپ کے چہرے پر تاثرات ایسے ہوں کہ آپ کسی گہری سوچ میں ہیں اور بہت مصروف ہیں۔ ورنہ آواز آئے گی ’فارغ بیٹھے ہو، ٹماٹر تو لا دو۔‘