خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چین، فرانس، آسٹریلیا اور امریکی سائنس دانوں نے ایک 75 سالہ دوا کے تجربات شروع کر دیے ہیں جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف موثر ہے۔
دو روز پہلے چینی حکام نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ایک وائرس کش دوا کا کرونا وائرس کے خلاف تجربات کیے ہیں جن کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں، تاہم جاپانی سائنس دانوں کے مطابق یہ دوا کچھ زیادہ موثر نہیں ہے اور اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اب امریکہ کی یونیورسٹی آف منی سوٹا کے ایک طبی ٹیم نے 1500 مریضوں پر ہائیڈراکسی کلوروکوین نامی دوا کا تجربہ شروع کر دیا ہے۔
یہ دوا ملیریا کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور اسے سب سے پہلے 1955میں متعارف کروایا گیا تھا۔ پرانی دوا ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے مضر اثرات معلوم ہیں۔
یہ بات پہلے ہی سے معلوم تھی کہ ہائیڈراکسی کلوروکوین مختلف قسموں کے وائرسوں کے خلاف موثر ہے، اسی لیے دنیا کی مختلف لیبارٹریوں میں کوو وڈ 19 یعنی کرونا وائرس کے خلاف اس کے تجربات جاری ہیں۔
اس کے علاوہ ہائیڈراکسی کلوروکوین کے ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ دوا بیماری سے جنگ لڑنے والے جسم کے دفاعی نظام کی جانب سے خارج کردہ ان فاسد مادوں کی پیداوار کو بھی روک دیتی ہے جو الٹا جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
ادھر معروف طبی جریدے ’جرنل آف کریٹیکل کیئر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا ہے ہائیڈراکسی کلوروکوین کے کو وڈ 19 کے علاج کے لیے موثر ہونے کے منطقی شواہد موجود ہیں۔ تاہم تحقیق کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس سلسلے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے اور مروجہ طبی قواعد و ضوابط کے مطابق قدم اٹھایا جائے۔
مزید برآں، ایک اور سائنسی جریدے ’سیل ڈسکوری‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں ووہان میں واقع چائینیز اکیڈمی آف سائنسز سے تعلق رکھنے والے تحقیق کاروں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس دوا میں کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دوا کے اثر کے ابتدائی نتائج کی خبر آنے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن پر زور دیا ہے کہ وہ اس علاج کی راہ میں حائل سرخ فیتے کی رکاوٹیں جلد از جلد ہٹائیں تاکہ اسے فوری طور پر کرونا وائرس کے علاج کے لیے فراہم کروایا جا سکے۔
یونیورسٹی آف منی سوٹا کے میڈیکل سکول کے ڈین جیکب ٹولر نے روئٹرز کو بتایا: ’ہم سماجی دوری جیسے اقدامات کے علاوہ سائنس کو استعمال کر کے دیکھ رہے ہیں کہ اس ضمن میں اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ نتائج مہینوں میں نہیں، ہفتوں میں سامنے آ جائیں گے۔‘
اسی ہفتے فرانس میں ہونے والے تجربات میں 25 مریضوں میں دیکھا گیا کہ جن مریضوں کو دوا دی گئی، ان میں سے 75 فیصد میں سے کرونا وائرس ختم ہو گیا، جب کہ جن مریضوں کو نقلی دوا دی گئی، ان میں صرف 10 فیصد میں وائرس ختم ہوا۔
تاہم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پلمونالوجسٹ ڈاکٹر رسل بر نے خبردار کیا کہ ابھی لوگوں کو خود سے یہ دوا نہیں لینی چاہیے۔ ’یہ علاج صرف ہسپتالوں میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔
انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ دوا پاکستان میں وافر مقدار میں موجود ہے اور اس وقت پانچ پاکستانی کمپنیاں یہ دوا مقامی طور پر تیار کر رہی ہیں۔ مزید یہ کہ یہ دوا بہت سستی ہے اور اس کی ایک گولی صرف نو روپے کی پڑتی ہے، اس لیے اگر تجربات کے نتائج حسبِ توقع آ جائیں تو اس دوا کر بہت آسانی سے بڑے پیمانے پر فراہم کیا جا سکتا ہے۔