دنیا بھر سمیت پاکستان کو بھی کرونا وائرس نے متاثر کیا ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیمی اداروں کو بند کرنے سمیت دیگر اقدامات بھی اٹھائے ہیں تاکہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔
اگرچہ بہت سے تعلیمی ادارے آن لائن کلاسز بھی دے رہے ہیں لیکن مسلسل گھر پر رہنے کی وجہ سے بہت سے طلبہ پریشان بھی دکھائی رہے ہیں، جن کی سماجی سرگرمیاں محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔
اسلام آباد کی ایک ایسی ہی طالبہ نے نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ کس طرح یونیورسٹی بند ہونے سے ان کی ذہنی صحت پر اثر پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذکورہ 21 سالہ طالبہ کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں دوستوں سے ملنے ملانے یا دیگر سماجی سرگرمیوں کو اتنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ 'یونیورسٹی بند ہونے سے میری زندگی پر بہت بڑا اثر پڑا ہے، مجھے ہمیشہ سے یہی کہا گیا ہے کہ تمہارا کام صرف پڑھنا ہے اور سماجی سرگرمیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔'
انہوں نے مزید بتایا: 'پہلے جب یونیورسٹی کھلی تھی تو میں چونکہ تخلیقی ذہن رکھتی ہوں اور مجھے ماڈلنگ اور اداکاری کا شوق ہے تو میں درمیان میں فوٹو شوٹس وغیرہ کرلیتی تھی، لیکن اب چونکہ یونیورسٹی بند ہے تو میں پڑھائی کا بہانہ بناکر وہاں نہیں جاسکتی۔'
مذکورہ طالبہ نے بتایا: 'اب مجھے گھر پر ہی رہنا پڑتا ہے ، جس سے میری ذہنی صحت پر فرق پڑ رہا ہے۔ گھر والے مجھے کہتے ہیں کہ یا تو پڑھو یا گھر کے کاموں میں مدد کرو۔ اگرچہ یہ ٹھیک ہے لیکن مجھے میری اپنی پسند کے کام کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، جس کی وجہ سے میں پریشان ہوں۔'
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر حکومتِ پاکستان نے ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لاکھوں طلبہ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔
غیر متوقع اور غیر معمولی چھٹیوں میں طلبہ اپنا وقت کس طرح گزار رہے ہیں؟
کرونا کے دور میں اپنے مسائل، خیالات، جذبات، منفرد مصروفیات اور آئیڈیاز شیئر کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے’کیمپس گھر میں‘ کے نام سے پاکستانی طلبہ کے ذاتی بلاگز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
اگر آپ بھی سٹوڈنٹ ہیں اور تحریر یا ویڈیو کے ذریعے بلاگنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں [email protected] پر بھیج دیں۔