خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں جاری محسود قبائل کے دھرنے میں جہاں روزانہ سینکڑوں افراد شریک ہوتے تھے آج یہاں چند ہی لوگ رہ گئے ہیں۔
اس کی وجہ بھی کرونا وائرس ہے، کیونکہ وائرس کے پاکستان میں پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے لوگوں کو گھروں میں رہنے اور پرہجوم مقامات پر نہ جانے کا کہا جا رہا ہے۔
جہاں انتظامیہ نے شاپنگ مالز، پارک، سینیما گھر، تفریحی مقامات وغیرہ بند کروا دیے ہیں وہیں محسود قبائل کا یہ دھرنا بھی سمٹ کر رہ گیا ہے۔
چین کے بعد دنیا بھر میں پھیلنے والے کرونا وائرس سے اب تک پاکستان میں 800 سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جن میں سے پانچ کی ہلاکت ہوئی ہے۔
خیبرپختونخوا میں اب تک کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی کل تعداد 31 ہے۔
وائرس کی وجہ سے صوبہ سندھ کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر علاقوں میں لوگوں سے خود ہی گھروں میں رہنے کا کہا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محسود قبائل دھرنے کے ترجمان حیات پریغال نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’اس دھرنے میں روزانہ دو سو سے پانچ سو کے قریب لوگ بیٹھا کرتے تھے۔ مگر دنیا بھر میں جو ایک وبا پھیلی ہے کرونا کے نام سے، پاکستان میں بھی اس کے خطرے کے پیش نظر یہاں ٹانک میں انتظامیہ کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہوئے جس کے بعد ہم نے اس دھرنے کو مختصر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ بس اب صرف چار ٹینٹ رہ گئے ہیں جن میں ایک وقت میں دو سے چار لوگ موجود ہوتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل تقریباً تین ماہ سے دھرنے اور احتجاج کر رہے ہیں۔
2009 کے بعد جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں ان پاکستانیوں کی املاک تباہ ہوئیں۔
احتجاجی محسود قبائل کا کہنا ہے کہ حکومت نے تاحال ان کے نقصانات کا مکمل معاضہ نہیں دیا ہے۔
ایف ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 2009 میں جو فوجی آپریشن ہوا اس کے بعد محسود علاقے میں صرف 87 ہزار گھر گرے یا تباہ ہوئے جن کے لیےحکومت نے معاوضے کا اعلان کیا تھا۔
اس سلسسلے میں پہلا سروے 2012-2011 میں شروع ہوا تھا پھر وہ کینسل ہوا، اس کے بعد 2013 میں دوبارہ سروے کا اعلان ہوا تو وہ بھی کینسل ہو گیا۔ اس کے بعد 2014 میں فیز ون اور فیز ٹو کے نام سے سروے کا آغاز ہوا۔
بار بار سروے کینسل ہونے سے لوگوں کا اعتماد انتظامیہ پر نہیں رہا تھا۔ فیز ون میں کافی سارے علاقے و گھر رہ گئے جبکہ کئی لوگ تو سروے کے لیے گئے ہی نہیں اور فیز ٹو کا بھی یہی حال رہا۔
حیات پریغال کہتے ہیں کہ اب ہم نے ان کو وقت دیا ہے کہ اگر ہمارے مطالبات پر عمل ہوگا تو پھر ہم دھرنا ختم کرنے کا سوچیں گے۔
انہوں نے کہا: ’27 جنوری کو جب یہ دھرنا شروع ہوا تو ہمارے ساتھ روزانہ دس سے 15 ہزار لوگ ہوتے تھے، درمیان میں لوگوں کی تعداد کم ہوئی کیونکہ ہر کسی کی مصروفیات ہوتی ہیں لیکن پھر بھی روزانہ دو سو سے پانچ سو لوگ شرکت کرتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں: 'اب جو دنیا بھر میں کرونا کی وبا پھیلی ہے، اور ادھر ٹانک میں دو انتظامیہ سے سامنا ہے ایک ٹانک ڈپٹی کمشنر کیونکہ ہم ٹانک ڈسٹرکٹ میں بیٹھے ہیں، ساتھ میں انتظامیہ بھی ادھر بیٹھی ہے، ٹانک انتظامیہ نے کہا آپ کا ادھر بیٹھنا اور بڑی تعداد میں بیٹھنا ہمارے لیے انتظامی مسئلہ پیدا کر رہا ہے، تو ہم نے ان کے ساتھ مذاکرات کیے اور دھرنا مختصر کر دیا۔'