لاپتہ افراد واپس آ کر کچھ نہیں بتاتے: جسٹس مندوخیل

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں لاپتہ افراد سے متعلق متفرق سیاسی جماعتوں کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا مسئلہ بیان بازی سے حل نہیں ہو گا۔‘

20 اکتوبر 2022 کی تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں لاپتہ افراد سے متعلق متفرق سیاسی جماعتوں کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’میری نظر میں لاپتہ افراد کا کیس انتہائی اہم ہے، لاپتہ افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے، لاپتہ افراد واپس آنے پر کہتے ہیں شمالی علاقہ جات آرام کے لیے گئے تھے۔‘

سپریم کورٹ کے چھ رکنی آئینی بینچ نے منگل کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں درخواستوں کی سماعت کی۔

بینچ کے دوسرے ججوں میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

آئینی بینچ نے اٹارنی جنرل، وزارت داخلہ اور دوسرے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے لاپتہ افراد پر تمام متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کی اور سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔

دوران سماعت جسٹس جمال خان  مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد کے کیسز ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں۔ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے۔ ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔ یہاں اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ جیسے سینیئر سیاستدان کھڑے ہیں۔ اس مسئلے کا حل پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔‘

ڈپٹی اٹارنی جنرل جاوید اقبال وینس نے عدالت کو بتایا کہ ’کابینہ میں لاپتہ افراد کا معاملہ گذشتہ روز زیر بحث آیا تھا۔ کابینہ نے ذیلی کمیٹی بنا دی ہے، جو اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی۔ حکومت لاپتہ افراد کا معاملہ حتمی طور پر حل کرنا چاہتی ہے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا مسئلہ بیان بازی سے حل نہیں ہو گا۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’لاپتہ افراد کمیشن نے اب تک کتنی ریکوریاں کی ہیں؟‘

جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ کیا کہ ’کیا کوئی لاپتہ افراد کمیشن کے پاس ڈیٹا ہے کہ کس نے ان لوگوں کو لاپتہ کیا، جو لاپتہ لوگ واپس آئے؟ کیا انہوں نے بتایا کون اٹھا کر لے کر گیا؟‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے جواباً ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد واپس آنے پر کچھ نہیں بتاتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے عدالت کے سامنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ملک  ڈیپ سٹیٹ بن گیا ہے۔‘

ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ جسٹس مندوخیل نے ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ کو سیاسی بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ کا عام یا مشترکہ اجلاس بلا کر مسئلے کو حل کریں۔‘

اس پر پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’کیا لاپتہ افراد کے معاملے کو 26 ویں آئینی ترمیم کی طرح حل کیا جائے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’26 ویں آئینی ترمیم بھی اپنے وقت پر دیکھی جائے گی۔ قوم اور عدالت آپ پارلیمنٹرینز کی طرف دیکھ رہی ہے۔‘

وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہیں۔‘

لاپتہ افراد کیس میں عدالت کا آرڈر بھی لاپتہ

جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ سے پوچھا کہ ’کھوسہ صاحب آپ کے تحریک انصاف کے لوگ بھی تو اٹھائے گئے۔‘

لطیف کھوسہ نے جواباً کہا کہ ’جی بالکل تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اٹھایا گیا۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ’کیا انہوں نے آکر بتایا کہ انھیں کون اٹھا کر لے کر گیا؟‘

لطیف کھوسہ نے انہیں جواب دیا کہ ’جو اٹھائے گئے ان کے بچوں کو بھی اٹھا لیا جائے گا۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے اس موقعے پر کہا کہ ’آپ اپنے آپ کو مضبوط کریں تو کون اٹھائے گا۔‘

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’جو لاپتہ ہوا اس سے پوچھیں کتنا تشدد ہوا۔‘

اس جواب پر جسٹس جمال مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’کھوسہ صاحب آپ سے آن ریکارڈ پوچھیں گے؟ آپ نے لاپتہ افراد کو پارلیمنٹ میں کتنی تقرریں کیں۔‘

وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ’لوگوں کے 10 سے 20 پیارے لاپتہ ہیں۔ عدالت نے گذشتہ سماعت میں لاپتہ افراد کے حوالہ سے حکم دیا تھا۔ آج وہ گذشتہ سماعت کا آرڈر بینچ کو نہیں مل رہا۔‘

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد کے کیس میں عدالت کا آرڈر بھی لاپتہ ہو گیا ہے۔‘

مقدمے کو مثال بنانا ہے تو جرت پیدا کریں

جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ’بلوچستان میں لاپتہ افراد کے ایک کلاسک مقدمہ میں 25 وکیل پیش ہوئے اور ہائی کورٹ کے حکم پر لاپتہ افراد گھر آ گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’عدالت نے واپس آنے والے افراد کو پیش ہونے کا حکم دیا لیکن بازیابی کے بعد وہ افراد کسی عدالتی فورم پر بیان کے لیے پیش نہیں ہوئے۔‘

جسٹس نعیم افغان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’بازیاب افراد کے بیانات ریکارڈ کروانے کا ایک مقصد تھا کہ اگر اس میں فوج ملوث ہے تو کورٹ مارشل کے لیے جی ایچ کیو کو لکھا جائے۔

’اگر دیگر اداروں میں سے کوئی ملوث ہے تو ان کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا حکم دیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’لاپتہ افراد کے کسی مقدمے کو مثال بنانا ہے تو اپنے اندر جرت پیدا کریں۔‘

جسٹس نعیم افغان نے مزید کہا کہ ’لاپتہ افراد سے واپس آنے والوں میں کوئی تو کھڑا ہو۔ لاپتہ افراد کے کچھ کیسز ریاست کو برباد اور بدنام بھی کرتے ہیں۔ کچھ کیسز میں افراد آزادی کے لیے شرمسار بن گئے، لاپتہ افراد کے نام پر آزادی کی جنگ بھی چل رہی ہے، سسٹم میں کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہیں۔‘

فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ ’اٹارنی جنرل یقین دہانی کے بعد 350 افراد لاپتہ ہوئے۔ سٹیٹ آفیشل گذشتہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کر رہے ہیں۔‘

حل کی طرف جانا چاہتے ہیں

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’ہم لاپتہ افراد کیس میں حل کی طرف جانا چاہتے ہیں۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’لاپتہ افراد کا حل یہ ہے کہ سٹیک ہولڈرز سر جوڑ کے بیٹھیں، غور کریں کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کو عدالت نے سپریم تسلیم کیا ہے، پارلیمنٹ خود کو بالادست ثابت کرے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان