کرونا وائرس کی وجہ سے حکومت پاکستان نے فلائٹ آپریشن بند کیے تو بیرون ملک سے آنے والے مسافر ہوائی اڈوں پر پھنس گئے۔
عائشہ حسین امریکہ میں رہتی ہیں، ان کے والد 73 سالہ پرویز خلجی ان کے پاس چھٹیاں منانے گئے تھے جبکہ ان کی والدہ نے 20 مارچ کو لاہور سے امریکہ روانا ہونا تھا اور پھر والدین نے مل کر 25 اپریل کو پاکستان لوٹنا تھا۔
کرونا وائرس کی بگڑتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے عائشہ نے والدہ کی امریکہ کے لیے فلائٹ کینسل کروا دی کیونکہ ان کے مطابق یہاں آنے والے تمام غیر ملکیوں کو 14 روز کے لیے قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے اور اسی ڈر سے عائشہ نے والد کی 20 مارچ کی واپسی کی ٹکٹ کروا کر انہیں واپس روانا کر دیا۔
ہیوسٹن سے دبئی کی 14 گھنٹے 50 منٹ کی فلائٹ کے دوران عائشہ نے میڈیا پر خبر سن لی کہ پاکستان جانے والی تمام فلائٹس بند کر دی گئی ہیں۔ ان کے والد جب دبئی اترے تو اس کے دو گھنٹے بعد واٹس ایپ کے ذریعے ان کی بیٹی کی ان سے بات ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ یہاں ان کے علاوہ اور بھی پاکستانی مسافر ہیں جن کا تعلق مختلف شہروں سے ہے اور ہم سب یہاں پھنس گئے ہیں۔
جس ایئرلائن سے وہ دبئی پہنچے ان کا کہنا تھا کہ آپ کے ملک نے فلائٹس بند کی ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
عائشہ کے والد نے انہیں بتایا کہ یہاں کونصلیٹ جنرل آف پاکستان والے دبئی ائیر پورٹ پر موجود ہیں اور وہ حکومت پاکستان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کی آپس میں کوئی بات چیت چل رہی ہے۔
ان کے والد نے بتایا کہ انہیں کوئی کمرہ بھی مہیا نہیں کیا گیا بلکہ وہ ائیرپورٹ کے ویٹنگ لاؤنج میں ہی کئی گھنٹوں سے بیٹھے ہیں۔
عائشہ نے صورت حال دیکھتے ہوئے پاکستان قونصلیٹ جنرل کے دفتر میں بھی فون کیا مگر کسی نے فون نہیں اٹھایا، پھر انہوں نے وزیر اعظم کی جانب سے جاری کردہ ایک ہیلپ لائن پر ای میل کی اور وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ مختلف ہوائی اڈوں پر پھنسے پاکستانی مسافروں کو وہاں سے نکالنے میں کوئی مدد کریں مگر کئی گھنٹوں بعد بھی عائشہ کو اس ای میل کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وہ بتاتی ہیں کہ لاہور میں ان کے بھائی ائیرپورٹ بھی گئے کہ یہاں سے کچھ معلوم ہو سکے مگر انہیں ائیرپورٹ کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
عائشہ اس وقت پریشان ہیں کیونکہ ان کے والد بزرگ ہیں اور ویل چئیر استعمال کرتے ہیں، ادویات کی بھی ان کو اشد ضرورت ہے اور اکیلے وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے۔
ان کی وزیر اعظم پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ ان کے والد اور ان جیسے دیگر مسافروں کو وطن واپس لانے کا جلد از جلد انتظام کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب دبئی ائیرپورٹ پر پھنسے پاکستانیوں کی حالت زار کا علم حکومت کو بھی ہو چکا ہے، وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے امور پر خصوصی معاون معید یوسف نے اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس میں یقین دہانی کروائی کہ دبئی، قطر، تھائی لینڈ اور ترکی کے ائیرپورٹس پر پھنسے مسافروں کو جلد پاکستان لانے کے حوالے سے ان ملکوں میں ائیر لائنز اور انتظامیہ سے رابطے میں ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر مسافروں کے پاس کرونا وائرس ٹیسٹ منفی ہونے کے سرٹیفیکٹ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی چار اپریل تک پاکستان کا سفر نہ کرے کیونکہ ہم نے فلائٹ آپریشن بند کیا ہوا ہے۔
دبئی میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان نے اتوار کی صبح ٹویٹ کیا تھا کہ سو سے زائد پاکستانی مسافر دبئی ائیرپورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں اور ان کے لیے وہاں 24 گھنٹے ہیلپ ڈیسک قائم کر دیا گیا ہے، جبکہ ڈپٹی قونصلیٹ جنرل کی جانب سے یہ خبریں آرہی ہے کہ انہوں نے خصوصی طیارے کے ذریعے دبئی ائیرپورٹ پر پھنسے مسافروں کو وہاں سے نکالنے کا کہا ہے۔
دوسری جانب دبئی کی ائیرلائن ایمریٹس کرونا وائرس کی وجہ 25 مارچ سے اپنے فلائٹ آپریشن بند کر رہی ہے اور صرف ان 12 ملکوں کے مسافروں کو ان کے وطن پہنچایا جائے گا جو ان کو اس کام کی درخواست دیں گے اور ان کے بارڈر ابھی کھلے ہیں۔