پانچ سال قید، جرمانے کی تجویز: غلط معلومات پھیلانے پر جوابدہی، وزیر مملکت آئی ٹی

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان مـجوزہ ترامیم کا مقصد ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ، آن لائن تحفظ کو یقینی بنانا اور تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

ایک شخص 17 اپریل 2024 کو اسلام آباد کے ایک بازار میں اپنے فون پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس استعمال کر رہا ہے جسے پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پاکستانی حکومت نے پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کے ذریعے فیک نیوز پھیلانے پر قید و جرمانے کی سزائیں شامل کی ہیں (فاروق نعیم / اے ایف پی)

پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) ترمیمی بل کے مجوزہ مسودے کے مطابق فیک نیوز دینے والے کو پانچ سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔

وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ پیکا قانون میں ترامیم ان افراد کو جوابدہ بنائیں گی جو جان بوجھ کر دوسروں کو نقصان پہنچانے، خوف یا معاشرتی بدامنی پھیلانے، یا قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والی غلط معلومات پھیلاتے ہیں۔

حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کا ابتدائی مسودہ تیار کر لیا ہے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو نے دیکھی ہے، فیک نیوز دینے والے کو پانچ سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔

یہ ترمیمی بل وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے مرتب کیا گیا ہے۔

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے اس مجوزہ بل سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان ترامیم کا مقصد ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ، آن لائن تحفظ کو یقینی بنانا اور تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

بل کا مقصد افراد، کاروبار اور قومی سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے سائبر چیلنجز سے نمٹنے میں کارکردگی اور ہم آہنگی کو بڑھانا ہے۔

شزا فاطمہ نے کہا ترمیم میں سیکشن 26 اے متعارف کرایا گیا ہے جو جعلی یا غلط معلومات پھیلانے پر جرمانہ عائد کرتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا ’وہ افراد جو جان بوجھ کر ایسے مواد کو شیئر کرتے ہیں جو دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں، خوف، گھبراہٹ یا معاشرتی بدامنی پھیلاتے ہیں، قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والی غلط معلومات پھیلاتے ہیں وہ جوابدہ ہوں گے۔‘

وزیر مملکت کے مطابق یہ متاثرہ افراد کو اس طرح کی معلومات کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے درخواست دینے کا اختیار دے گا جو نقصان کو کم کرنے کے لیے فورا کارروائی کو یقینی بنا سکے گا اور اس سے ڈجیٹل دور میں سائبر کرائم کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنے میں بھی مدد ملے گی۔

شزا نے کہا یہ خاص طور پر معاشرے کے کمزور گروپ بشمول بچوں، نابالغ افراد، خواتین، اقلیتوں وغیرہ کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

ورچوئل پراویٹ نیٹ ورک (وی پی این) سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے آئی شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ اس بل میں ’وی پی این سے متعلق کچھ موجود نہیں ہے۔‘

’غیر قانونی مواد کی تعریف اتنی بڑی کر دی ہے کہ اب ہر چیز قابل گرفت ہو سکے گی‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کو عوام کے حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔

ایچ آر سی پی کی ڈائریکٹر فرح ضیا نے انڈپینڈنٹ اردو سے ان مجوزہ ترامیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام کے حقوق فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کی آڑ میں چیزیں کنٹرول کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ صورت حال ایک ہاتھ سے حقوق دے کر چھیننے والی بات ہے۔ ان مجوزہ ترامیم میں متعدد مسائل نظر آ رہے ہیں جن میں سزاؤں کا سخت سے سخت تر ہونا شامل ہے۔ آپ پیش بندی کرنا چاہ رہے ہیں کہ لوگ کوئی بات ہی نہ کریں۔‘

فرح ضیا نے کہا کہ ریاست پچھلے کچھ عرصہ سے سیاسی اختلاف کو روکنے کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں مین سٹریم میڈیا پر پہلے ہی کنٹرول تھا، اس کے بعد انٹرنیٹ اور وٹس ایپ میں سست روی ہے، لوگ سچ جاننے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرتے تھے۔

’ریاست جب پہلے ہی پوری طرح چیزیں کنٹرول کر رہی ہے، اس تناظر میں اس طرح کی ترامیم لانا قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ مجوزہ ترامیم کے مواد سے ایسے نظر آ رہا ہے جیسے اب وی پی این کو بھی کنٹرول کیا جائے گا۔ اس اتھارٹی میں جب بیشتر اراکین حکومت سے ہوں گے تو میڈیا کی آزادی کے تناظر میں یہ بھی بہت زیادہ ہے۔‘

فرح ضیا کے مطابق بظاہر لگ رہا ہے کہ سٹیک ہولڈر سے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی اور حکومت اپنی طرف سے یہ ترامیم تجویز کر رہی ہے۔

’غیر قانونی مواد کی تعریف اتنی بڑی کر دی گئی ہے کہ اب ہر چیز کو قابل گرفت لایا جا سکے گا۔‘

پیکا ایکٹ میں مجوزہ ترامیم کیا ہیں؟

پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے نافذ العمل ہونے کے بعد وفاقی حکومت گزٹ کے ذریعے ایک ’اتھارٹی‘ کا قیام عمل میں لائے گی جس کا نام ’ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی‘ ہوگا اور اسے مواد بلاک کرنے یا ہٹانے کا اختیار ہوگا۔

اس اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ متعلقہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ایسے آن لائن مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کے لیے ہدایات جاری کرے جو اسلام کی شان اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو یا نظریہ پاکستان کے خلاف ہو۔

اگر آن لائن مواد افراد، عوام، حکومتی عہدے داروں بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجبور کرنے، ڈرانے یا خوف زدہ کرنے کے مقصد سے عوام کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے اکساتا ہے یا اس کا امکان ہے تو اسے ہٹایا یا بلاک کیا جائے گا۔

اگر آن لائن مواد سرکاری عمارتوں بشمول سرکاری تنصیبات، سکولوں، ہسپتالوں، دفاتر یا کسی بھی دوسری سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانے، لوٹ مار، آتش زنی یا کسی دوسرے طریقے سے املاک کو نقصان پہنچانے سمیت جذبات کو بھڑکاتا ہے یا اس کا امکان ہے تو اسے بلاک کیا یا ہٹایا جائے گا۔

اس میں مذہبی فرقہ واریت یا نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانے سے متعلق لگائے گئے مواد کو ہٹانے کا اختیار بھی حاصل ہوگا جبکہ کسی شخص کو ڈرانے، جھوٹا الزام لگانے سے متعلق مواد اور پورنوگرافی سے متعلق مواد کو بھی ہٹایا جا سکے گا۔

مسودے کے مطابق ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کی دیگر اقسام کو فروغ دینے سے متعلق مواد بھی ہٹایا جا سکے گا۔

مجوزہ مسودے کے مطابق وہ مواد جو نسل، ذات، قومیت، نسلی یا لسانی بنیاد، رنگ، مذہب، فرقہ، جنس، عمر، ذہنی یا جسمانی معذوری کی بنیاد پر کسی فرد یا افراد کے گروہ کے خلاف نفرت اور تحقیر کو ہوا دیتا ہو اسے بلاک یا ہٹا دیا جائے گا۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کی کارروائی سے ہذف کیے گئے الفاظ یا چیئرپرسن سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی جانب سے خارج کی گئی کارروائی کا حصہ و لفظ استمعال، نشر یا سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں کیے جا سکیں گے۔

ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کا ایک چیئرپرسن اور چھ اراکین ہوں گے جن میں سے تین ایکس آفیشو ممبر ہوں گے اور اس کے فیصلے کے خلاف ٹربیونل سے رجوع کیا جا سکے گا۔

تین اراکین پر مشتمل ٹربیونل میں ایک چیئرپرسن جو ہائی کورٹ کا جج ہو، یا بننے کا اہل ہو یا ہو چکا ہو، دوسرا پاکستان کے کسی پریس کے ساتھ رجسٹرڈ صحافی جس کا متعلقہ تجربہ 12 سال سے کم نہ ہو، اور تیسرا رکن سافٹ ویئر انجینیئر شامل ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان