اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ابیض مصطفیٰ لاہور سکول آف اکنامکس میں زیر تعلیم ہیں۔
لاہور میں وہ ہاسٹل میں رہتے ہیں، لیکن ملک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیش نظر تعلیمی ادارے اور ہاسٹلز بند کردیے گئے، جس کی وجہ سے انہیں واپس اسلام آباد جانا پڑا، لیکن اس پر وہ کچھ خوش نظر نہیں آتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: 'گذشتہ ہفتے ہمارے مڈٹرم ہو رہے تھے لیکن وہ منسوخ ہوگئے، ہے تو یہ خوشی کی بات، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یونیورسٹی بند ہوگئی تو والدین نے یہاں رہنے نہیں دیا اور مجھے اسلام آباد واپس بلوا لیا۔'
ابیض کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد آنے سے ان کا سپورٹ سسٹم یعنی دوست احباب سے ملنا ملانا ختم ہوگیا ہے اور والدین کی جانب سے کرونا وائرس کی وجہ سے باہر آنے جانے پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔
'تین سال سے ہاسٹل میں رہنے والے بندے کے لیے 20 دن گھر میں رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔'
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر گھر سے نکلتے ہیں لیکن اس سے پھر گھر میں لڑائی ہوتی ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر حکومتِ پاکستان نے ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے لاکھوں طلبہ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔
غیر متوقع اور غیر معمولی چھٹیوں میں طلبہ اپنا وقت کس طرح گزار رہے ہیں؟
کرونا کے دور میں اپنے مسائل، خیالات، جذبات، منفرد مصروفیات اور آئیڈیاز شیئر کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے’کیمپس گھر میں‘ کے نام سے پاکستانی طلبہ کے ذاتی بلاگز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
اگر آپ بھی سٹوڈنٹ ہیں اور تحریر یا ویڈیو کے ذریعے بلاگنگ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں [email protected] پر بھیج دیں۔