کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد ابتدائی ہفتوں میں جو اطلاعات آئیں ان میں کہا گیا تھا کہ کرونا وائرس نوجوانوں اور بچوں میں بڑوں کے مقابلے پر کم انفیکشن پیدا کرتا ہے، لیکن تازہ ترین تحقیق کے مطابق اس وائرس سے بچے اور نوجوان بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
اٹلی سے آنے والی بعض رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کی نوجوان آبادی کا ایک حصہ کرونا وائرس سے ذرا بھر خوفزدہ نہیں ہے اور انہی لوگوں کی بڑی تعداد سرکاری پابندیوں کی خلاف ورزی بھی کرتی ہے۔ اسی طرح امریکہ اور برطانیہ سے بھی خبریں آئی ہیں کہ نوجوان کرونا وائرس کی وجہ سے لگائی جانے والی پابندیوں کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتے۔
لیکن اب یہ معلوم ہو رہا ہے کہ نوجوانوں کو بھی اس مرض سے فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔ امیریکن اکیڈمی آف پیڈائیٹرکس کے جریدے میں شائع ہونے والی ایک پری پبلیکیشن میں نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ہر عمر کے بچوں اور نوجوانوں کو کرونا وائرس انفیکٹ کرتا ہے۔ تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ اگرچہ کو وڈ 19 کی شدید علامات نوجوانوں میں زیادہ ظاہر نہیں ہوتیں لیکن کم عمر بچے، بالخصوص شیر خوار اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
اسی طرح چین کے بیماریوں کی روک تھام کے سرکاری ادارے کی جانب سے شائع کردہ ایک تحقیق کے مطابق بچوں کو بھی کرونا وائرس کا انفیکشن اسی شرح سے لگتا ہے جتنا بڑوں کو، لیکن اکثر بچوں میں اس کی علامات بڑوں کی نسبت ہلکی ہوتی ہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں پر شدید اثرات سے بالکل بچے رہتے ہیں۔ چند تازہ رپورٹوں کے مطابق ایسے بچے بھی سامنے آ رہے ہیں جن کے پھیپھڑے ناکارہ ہو گئے تھے۔ اسی طرح سے اب تک کئی بچوں کی ہلاکتوں کی خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چین کے صوبہ ہوبے کے ہسپتالوں میں کو وڈ 19 سے متاثرہ 125 ایسے بچے لائے گئے جن کے پھیپھڑے بدن کو کافی مقدار میں آکسیجن فراہم کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، اور ان میں سے 13 کی حالت اتنی نازک ہو گئی کہ ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں۔
بچوں میں شدید علامات کی عدم موجودگی بھی خطرے سے خالی نہیں۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں مالیکیولر وائرالوجی کے پروفیسر جوناتھن بال نے اخبار گارڈین میں ایک مضمون میں لکھا ہے بچوں کی علامات کا زیادہ شدید نہ ہونا اس وائرس کا خطرناک ہتھیار ہے کیوں کہ ایسے بچے مرض کو بڑوں تک پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کو اتنی ہی احتیاط کرنی چاہیے، جتنی بڑے کر رہے ہیں، کیوں کہ اگر وہ وائرس میں مبتلا ہو جائیں گے تو وائرس ان کے جسم میں پھلتاتا پھولتا رہے گا اور ان کے بڑوں کو متاثر کرے گا۔
اسی طرح چھوٹے بچوں کے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ہاتھ باقاعدگی سے دھلواتے رہیں اور انہیں دوسرے لوگوں کے قریب نہ جانے دیں۔
بچوں کی اکثریت شدید بیمار کیوں نہیں پڑتی؟
اس کی ٹھیک ٹھیک وجہ معلوم نہیں ہے، اور اس مقصد کے لیے مختلف ملکوں میں تحقیق جاری ہے۔ تاہم ماہرین نے چند نظریات ضرور قائم کیے ہیں:
- کرونا وائرس ان لوگوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے جو پہلے ہی سے کسی اور مرض کا شکار ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کی اکثریت کو بلڈ پریشر، ذیابیطس یا اسی قسم کی دوسری بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، اس لیے وہ زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔ بچے اور نوجوان عام طور پر ایسی بیماریوں سے پاک ہوتے ہیں اس لیے وہ بچے رہتے ہیں۔
- بڑی عمر کے لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد کے پھیپھڑے طویل عرصے تک تمباکو نوشی کی لت کی وجہ سے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں، اس لیے وہ کرونا وائرس کا آسان شکار بن جاتے ہیں۔ بچوں کے پھیپھڑے عام طور پر زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔
- کو وڈ 19 میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہی ہے، ایک اور مسئلہ انسان کے اپنے مدافعتی نظام کا ضرورت سے زیادہ فعال ہو جانا بھی ہے۔ جب جسم دیکھتا ہے کہ وائرس قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے تو وہ شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وائرس کو ختم کرنے کے لیے ایسے مرکبات کی یلغار کر دیتا ہے جو الٹا پھیپھڑوں اور جسم کے دوسرے اعضا کے لیے وائرس سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔
- طبی اصطلاح میں اس عمل کو cytokine storm کہتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھیے جیسے ملک کے کسی شہر کے بارے میں پتہ چلے کہ وہاں دشمن کے چند جاسوس چھپے ہوئے ہیں اور اس ملک کی فوج بمباری کر کے اپنے ہی شہر کو تہس نہس کر ڈالے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کا مدافعتی نظام بڑوں کے مقابلے پر زیادہ متوازن ہوتا ہے، اس لیے وہ ضرورت سے زیادہ سرگرم ہو کر سائیٹوکائن کی گولہ باری کی نوبت نہیں آنے دیتا۔
لیکن جہاں تک وائرس سے انفیکٹک ہونے کی بات ہے تو اس میں بڑے چھوٹے کی تخصیص نہیں ہے، اس لیے بچوں اور نوجوانوں کو بھی اتنی ہی احتیاط کی ضرورت ہے جتنی بڑوں کو اس لیے ہر عمر کے لوگوں کو یکساں احتیاط کی ضرورت ہے۔