انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ اوپنر جیف بائیکاٹ سے جب ایک بار پوچھا گیا کہ کرکٹ میں قسمت کا کتنا عمل دخل ہے تو بولے اگر 1992 کے ورلڈکپ میں سے پاکستان کو نکال دیا جائے تو قسمت کچھ نہیں ورنہ کبھی کبھی قسمت بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔
1992 کا ورلڈ کپ ساری دنیا شاید بھول جائے لیکن پاکستان کبھی نہیں بھول سکتا کیونکہ 25 مارچ 1992 کو ایک بکھری ہوئی ٹوٹی پھوٹی ٹیم، جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی مستند بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، جس کے لیے ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشنگوئی کی تھی، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔
پاکستان کے سابق کپتان رمیز راجہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس ورلڈ کپ کی بات کریں تو بس ایک ہی جملہ ہے کہ ٹیم پہلے گری اور پھر گر کر اٹھی حالانکہ ایک گری ہوئی ٹیم کا دوبارہ اٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ٹیم نے کر دکھایا۔
پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابل اعتماد بلے باز نہ تھا۔ آخری پانچ میچوں میں تو وہ خود بیٹنگ کا بوجھ اٹھاتے رہے، بولنگ میں سارا بوجھ وسیم اکرم کے کاندھوں پر تھا لیکن یہ ٹیم جب واپس آئی تو صرف ورلڈ کپ لے کر نہیں آئی بلکہ اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل،عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہر قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔
انضمام الحق تو پاکستانی بیٹنگ کے قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کا سفر اس ورلڈ کپ میں مایوس کن تھا، پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز سے شکست اور پھر بھارت اور جنوبی افریقہ سے شکست ہوئی البتہ درمیان میں زمبابوے سے جیت کے علاوہ ایک اہم میچ انگلینڈ کے خلاف ڈرا ہونے سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوا۔ یہی وہ میچ تھا جس کے ایک پوائنٹ نے پاکستان کو آسٹریلیا کی جگہ سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔
پاکستان نے جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد خود کو پھر سے اکھٹا کیا اور آئندہ میچوں میں مارو یا مرجاؤ کی قسم کھا کر جوآگے بڑھنا شروع کیا تو پھر پیچھے پلٹ کر میلبرن میں ہی اس وقت دیکھا جب کرسٹل ٹرافی عمران خان کے ہاتھوں میں جگمگا رہی تھی۔
رمیز راجہ کہتے ہیں خاموش طبیعت کے کپتان عمران خان کو ہم نے پہلی دفعہ اس ورلڈ کپ میں اتنا پرعزم دیکھا۔ ان کے کمرے سے نیٹ پریکٹس تک نصرت فتح علی خان کی قوالیاں بجتی رہتی اور ان کا سر اس موسیقی پر اس طرح گھومتا رہتا کہ لگتا ہم کپ جیت چکے ہیں۔
نصرت فتح علی خان کو اس ورلڈ کپ سے خاص شہرت ملی تھی سب ہی قوالی کو انجوائے کرتے اور اگلے میچ کی تیاری کرتے۔
18 مارچ کو پاکستان ٹیم کرائسٹ چرچ میں نیوزی لینڈ سے آخری گروپ میچ کھیل رہی تھی۔ نیوزی لینڈ اس ورلڈ کپ میں سب سے مضبوط ٹیم تھی اور سارے میچ جیت چکی تھی اس لیے اپنے آخری گروپ میچ میں اس کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔
پاکستان نے اس کا فائدہ اٹھایا اور اپنا آخری میچ جیت لیا لیکن اس جیت کے بعد بھی گرین شرٹس کو قسمت کا انتظار تھا، اگر آسٹریلیا اس دن ویسٹ انڈیز کو ہرا دیتا تو پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ سکتا تھا ورنہ کراچی کی پرواز۔
اور پھر قسمت نے یاوری کی آسٹریلیا جس کی پورے ٹورنامنٹ میں کارکردگی بہت خراب تھی آخری میچ میں جاگی اور مضبوط ویسٹ انڈیز کو ہرا کر پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا گئی۔
سیمی فائنل میں 11 پاکستانی کھلاڑی اور قسمت مل کر نیوزی لینڈ کے خلاف کھیل رہے تھے اور نیوزی لینڈ اپنے ایک بڑے سکور کا دفاع نہ کرسکا کیونکہ مرحوم کپتان مارٹن کرو بیٹنگ کے دوران زخمی ہوگئے تھے اور قائم مقام کپتان جان رائٹ کو کپتانی کرنا پڑی۔
وہ کپتانی کے جوہر سے آگاہ نہ تھے، فیلڈ پلیسنگ میں ان کی غلطیوں نے انضمام الحق کو موقع دیا کہ وہ جارحانہ شاٹ کھیل کر رنز بناتے رہیں اور پاکستان قسمت کے گھوڑے پر سوار ہوکر فائنل میں پہنچ جائے۔
فائنل میں بھی قسمت پاکستان پر مہربان رہی سٹیو بکنر کی امپائرنگ نے انگلینڈ کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ پہلے تو پاکستان کی اننگز کے معمار جاوید میاں داد واضح ایل بی ڈبلیو آؤٹ نہیں دیے گئے اور پھر انگلینڈ کی بیٹنگ میں آئن بوتھم کا آؤٹ بھی متنازع رہا۔ انگلینڈ ٹیم کے بولر ڈیرک پرنگل آج بھی سٹیو بکنر پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انگلینڈ جیت نہ سکا۔
پاکستان کی بیٹنگ سست رفتاری سے چلی۔ کپتان عمران خان اور جاوید میاں داد نے رن ریٹ کے بجائے اننگز مستحکم کرنے پر توجہ دی، شاید انہیں انضمام الحق اور وسیم اکرم کی جارحانہ بیٹنگ پر اعتماد تھا۔ وسیم اکرم نے بھی مایوس نہیں کیا۔
پاکستان کو فائنل جتوانے میں ان کا سب سے بڑا ہاتھ تھا جن کی بیٹنگ اور بولنگ نے ضرورت کے کسی بھی لمحہ میں ٹیم کو مایوس نہیں کیا۔
دھواں دھار بیٹنگ اور دو چار قدم سے جادوئی بولنگ نے انگلینڈ کی کمر توڑ دی۔ کرس لیوس تو شاید ساری زندگی وہ گیند نہیں بھول سکتے جو دو میٹر کے فاصلے سے لیٹ سوئنگ ہوئی اور لیوس کی وکٹ اڑاگئی۔
پاکستان کی فیلڈنگ بھی بہت معیاری تھی عاقب جاوید نے گراہم گوچ کا مشتاق احمد کی گیند پر جو کیچ لیا وہ پورے ٹورنامنٹ کے بہترین کیچز میں سے ایک تھا۔
پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ یقیناً پوری ٹیم کی محنت اور کاوشوں سے جیتا۔ رمیز راجہ، عامر سہیل نے سنچریاں سکور کیں۔ عمران خان، جاوید میاں داد، انضمام الحق نے کئی مواقعوں پر بہت عمدہ بیٹنگ کی، وسیم اکرم، عاقب جاوید، مشتاق احمد نے شاندار بولنگ کی ان سب کا ثمر ورلڈ کپ تھا۔
لیکن قسمت اس ورلڈ کپ میں اور اس کے بعد کہاں کہاں یاوری کرتی رہی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کئی مواقع پر تو صاف نظر آتا ہے۔
بہت ساری جگہوں پر مددگار رہتے ہوئے ایک ایسی جگہ بھی قسمت مہربان نظر آتی ہے جس نے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کو میلبرن کے میدان سے وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچا دیا۔
ورلڈکپ کی جیت نے آج تک کپتان کی شخصیت کو سب پر حاوی رکھا ہے۔
آپ کچھ بھی کہیے کرکٹ کھیل تو مہارت اور محنت کا ہے لیکن نتیجہ قسمت کا ہی ہے۔