حکومتِ پاکستان نے جنوری میں چین کے شہر ووہان میں پھنسے پاکستانی طالب علموں کی مالی امداد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بیجنگ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے بیشتر طالب علموں کو گذشتہ مہینے ہی پیسے بھیج دیے گئے تھے لیکن دو یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو یہ پیسے ابھی تک نہیں ملے۔
چینی حکومت نے کرونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے 23 جنوری کو ووہان کو مکمل طور پر سیل کر دیا تھا۔ بیجنگ میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے مطابق ووہان کی مختلف یونیورسٹیوں میں تقریباً 500 طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے ان طالب علموں کو پاکستان واپس لانے سے انکار کرتے ہوئے ان کی مالی مدد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ووہان میں مقیم ہر طالب علم کو 840 ڈالر دیے جائیں گے تاکہ وہ آن لائن کھانا منگوا سکیں۔ جس کے بعد پاکستانی سفارت خانے نے ووہان میں مختلف یونیورسٹیوں سے پاکستانی طالب علموں کا ڈیٹا حاصل کر کے ان کے بینک اکاؤنٹ میں فی کس 3500 یو آن (تقریباً 496 ڈالر) جمع کروا دیے تھے، تاہم یونیورسٹی آف چائینیز اکیڈمی آف سائنسز اور چائینیز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز کے طالب علموں کو اب تک یہ پیسے نہیں دیے گئے۔
ان دونوں یونیورسٹیوں کے مین کیمپس چین کے دارالحکومت بیجنگ میں جبکہ ذیلی کیمپسز ووہان میں ہیں۔ یونیورسٹی آف چائینیز اکیڈمی آف سائنسز کے ووہان کیمپس میں آٹھ جبکہ چائینیز اکیڈمی آف اگریکلچر سائنسز کے ووہان کیمپس میں 12 پاکستانی طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک طالب علم نے اپنا نام شائع نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پاکستانی سفارت خانے سے بار بار رابطہ کر رہے ہیں لیکن انہیں ہر بار ایک نئی کہانی سنا کر ٹال دیا جاتا ہے۔
'ہم گنتی کے چند لوگ ہیں۔ ہم اب تک یہ معاملہ میڈیا پر نہیں لا رہے تھے۔ ابھی بھی کئی طالب علم اس بات کی حمایت نہیں کر رہے۔ انہیں ڈر ہے کہ میڈیا پر خبر آنے سے سفارت خانے ان سے ناراض ہو جائے گی۔'
طالب علم نے بتایا کہ ووہان بند ہونے کے بعد پاکستانی سفارت خانے نے ووہان کی تمام یونیورسٹیوں کو ایک ای میل بھیجی تھی جس میں انہیں پاکستانی طلبہ کا خیال رکھنے کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ ای میل ان کی یونیورسٹی کو بھی بھیجی گئی تھی۔ ای میل میں سفارت خانے نے یونیورسٹی انتظامیہ سے پاکستانی طلبہ کو پھل اور کاؤنسلنگ سروسز مہیا کرنے کا بھی کہا تھا۔
'یونیورسٹی نے ہمیں پھل دیتے ہوئے خاص طور پر بتایا تھا کہ یہ آپ کی سفارت خانے کی درخواست پر دیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد سفارت خانے کے اہلکار ہم سے مسلسل رابطے میں رہے۔ وہ ہم سے ہماری معلومات لیتے رہے جیسے کہ نام، پاسپورٹ نمبر اور ڈگری پروگرام کی تفصیل۔'
مذکورہ طالب علم نے مزید بتایا کہ اگلے مرحلے میں سفارت خانے نے ووہان کی یونیورسٹیوں سے پاکستانی طلبہ کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات مانگیں لیکن ان کی یونیورسٹی کو نظرانداز کر دیا گیا۔
'ہمیں تو دیگر پاکستانی طالب علموں سے پتہ چلا کہ ان کی یونیورسٹیاں ان کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہیں۔ ہم سے تو کسی نے ڈیٹا نہیں مانگا۔ کچھ دن بعد خبریں آنے لگیں کہ دیگر یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو پیسے مل رہے ہیں۔ ہم نے تب سفارت خانے سے رابطہ کیا۔'
پہلی دفعہ رابطہ کرنے پر سفارت خانے نے کہا کہ وہ ایک ایک کر کے ہر یونیورسٹی میں پیسے بھیج رہے ہیں۔ ان کی یونیورسٹی کی باری آنے پر انہیں بھی پیسے بھیج دیے جائیں گے۔
'کچھ دن بعد ہم نے پھر انہیں فون کیا۔ ایک اہلکار نے کہا کہ آپ کی یونیورسٹی ہم سے مِس ہو گئی ہے۔ کچھ دن بعد ایک اور طالب علم نے سفارت خانے فون کیا تو اسے کہا گیا کہ آپ کی یونیورسٹی نے ہمیں ڈیٹا ہی نہیں بھیجا۔ ہم نے انٹرنیشنل سٹوڈنٹ آفس سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستانی سفارت خانے کی طرف سے ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔'
دونوں یونیورسٹیوں کے طالب علموں نے اپنی مدد آپ کے تحت سفارت خانے کو کئی دفعہ تمام طالب علموں کا ڈیٹا بھیجا اور یونیورسٹی انتظامیہ سے بھی ڈیٹا بھیجنے کی درخواست کی۔
'ہم نے یونیورسٹی سے اپنی بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات سفارت خانے کو بھیجنے کی درخواست کی تو انہوں نے کہا کہ ہم کیسے اتنا حساس ڈیٹا بغیر کسی درخواست کے بھیج دیں۔ ہم نے انہیں کہا کہ آپ کو سفارت خانے کی طرف سے جو پہلی ای میل آئی تھی، آپ اسی پر ہمارا ڈیٹا بھیج دیں۔ وہ سفارت خانے کی آفیشل ای میل آئی ڈی ہے۔ یونیورسٹی نے ہمارے کہنے پر 26 فروری کو ہمارا ڈیٹا سفارت خانے کو بھیجا۔'
اس کے بعد بھی سفارت خانےکی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ طالب علموں کے اصرار پر سفارت خانے نے ان کی یونیورسٹیوں سے ان کا ڈیٹا مانگا۔
مذکورہ طالب علم کے مطابق: 'سفارت خانے نے 15 مارچ کو میری یونیورسٹی کو ای میل بھیجی جس میں تمام پاکستانی طالب علموں کی تفصیلات مانگی گئیں۔ یونیورسٹی نے اس ای میل کے جواب میں ایک بار پھر سے ہمارا ڈیٹا سفارت خانے کو بھیجا اور سفارت خانے نے اگلے روز ایک ای میل میں ڈیٹا موصول ہونے کی تصدیق بھی کی۔'
اس کے چند روز بعد طالب علموں نے سفارت خانے سے رابطہ کیا تو انہیں کہا گیا کہ ان کا معاملہ زیرِ غور ہے۔
'ایک اہلکار نے کہا کہ آپ کا ڈیٹا اسلام آباد بھیج دیا گیا ہے۔ وہاں سے اپروول ملتے ہی آپ کے پیسے جاری کر دیے جائیں گے۔ پیر کو میرے ایک جونیئر نے سفارت خانے فون کیا تو اسے کہا گیا کہ ہمیں تو آپ کا ڈیٹا ہی نہیں ملا۔ ہمیں کچھ نہیں پتہ کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم کئی بار انہیں اپنی تفصیلات بھیج چکے ہیں۔ یہ ہمیں واضح جواب نہیں دیتے۔'
ووہان میں کچھ پاکستانی طالب علم ایسے بھی ہیں جو جنوری میں گریجویٹ ہو چکے تھے، تاہم شہر بند ہونے کی وجہ سے وہ باہر نہیں نکل سکے اور اب تک وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کا وظیفہ بھی ختم ہو چکا ہے اور وہ اب اپنی جمع پونجی پر گزارہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستانی سفارت خانے کے تھرڈ سیکریٹری ذوالفقار علی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں، ترجمان دفتر خارجہ سے بات کریں۔
بعدازاں رابطہ کرنے پر ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کو بتایا کہ پاکستانی سفارت خانے نے چین میں موجود پاکستانیوں کی حتی الامکان مدد کی ہے اور اگر مزید بھی ضرورت ہوئی تو چین میں موجود سفارت خانہ پاکستانی طلبہ کا خیال رکھے گا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ 'ان کے علم میں نہیں ہے کہ کچھ طالب علموں کو سفارت خانے کی جانب سے رقم نہیں ملی، تاہم ان کے رابطہ نمبر اگر مل جائیں تو بیجنگ میں موجود سفارت خانہ ان سے رابطہ کرے گا۔'
دوسری جانب دفتر خارجہ میں ڈی جی چائنہ ڈیسک مدثر ٹیپو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ '90 فیصد طالب علموں کو پیسے مل چکے ہیں اور ہماری کوشش یہی ہے کہ سب کو مل جائیں۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'دس فیصد جو رہ گئے ہیں ان کے بینک کی تفصیلات تصدیق کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ حکومت کا پیسہ ہے جب تک بینک اکاؤنٹ کی تصدیق نہیں ہو گی پیسہ کیسے ٹرانسفر ہو سکتا ہے؟ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے کہ کسی کو رقم نہیں ملے گی۔'