صوبہ سندھ کی حکومت نے کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گذشتہ پیر سے صوبے بھر میں 15 دن کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کر دیا تھا۔ صوبے کے دیگر شہروں کی طرح دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی تجارتی مراکز، مارکیٹ، متعدد سرکاری دفاتر، تفریحی مقامات مکمل طور پر بند ہیں۔
جبکہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے سندھ پولیس اور رینجرز کے دستوں نے شاہراہوں پر ناکہ بندی کر رکھی ہے اور آنے جانے والوں سے گھر سے باہر نکلنے کا سبب پوچھنے کے ساتھ ان کا شناختی کارڈ بھی چیک کیا جا رہا ہے۔
ایسے لاک ڈاؤن کی صورتحال میں زندگی کے کچھ شعبوں کے لوگ وائرس سے متاثر ہونے کا رسک لے کر عوام کو سہولیات پہنچا رہے ہیں۔
ان میں سے کراچی کے تجارتی مرکز صدر کے رہائشی محمد ریئس بھی ایک ہیں۔ وہ اخباری ہاکر ہیں اور بلا ناغہ لوگوں کو ان کے گھروں پر ہر صبح اخبار دینے نکلتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد ریئس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمارا کام ہی ایسا ہے، ہمیں ہر صورت کرنا پڑتا ہے۔ چاہے طوفان ہو، آندھی ہو یا بارش، اخبار گھروں تک پہچانا ضروری ہے۔ کچھ گھنٹے بھی دیر ہوجائے تو اخبار ردی بن جائے گا۔‘
وہ فجر کے وقت گھر سے نکل کر صدر کے ایک اخباری ڈیپو پر جاتے ہیں جہاں سندھی اردو، انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں درجنوں اخبارات لائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے حصے کے اخبار اٹھاکر گھر گھر پہچانے نکل جاتے ہیں۔
’کرونا وائرس کی وبا والی خبریں سن کر ڈر تو لگتا ہے مگر مجبوری ہے۔ ایک تو یہ میرے بچوں کی روزی روٹی ہے دوسرا لوگوں کو وائرس سمیت اہم موضوعات پر معلومات کے لیے ضروری ہے کہ ان کو اخبارات پہنچائے جائیں، تو اس لیے ڈر کے باوجود یہ کام جاری رکھا ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی وجہ سے اخبار کی ترسیل کچھ دنوں کے لیے معطل کی جائے تو پھر لوگ کسی اور ہاکر سے خریدنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر اخبار ہی بند کر دیتے ہیں۔