یہ 1969 کے جون کا گرم خُو مہینہ ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو اپنی بیٹی بے نظیر کے ہمراہ اپنے بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کر رہے ہیں۔ دہکتے ہوئے سورج کے نیچے قبروں کا سکوت ہے۔
اچانک باپ نے بیٹی کی طرف دیکھا اورکہا ’تم بہت دور امریکہ جا رہی ہو۔ تم بہت سی ایسی چیزوں کو دیکھو گی جو تمہیں حیران کریں گی۔ تم بہت سی ایسی جگہوں کا سفر کرو گی جن کا کبھی نام بھی نہیں سنا ہو گا لیکن یاد رکھو آخر کار تمہیں یہیں لوٹنا ہو گا۔‘
آج ایک مدت بعد میں گڑھی خدا بخش آیا ہوں۔ آج بھی آسمان پر سورج دہک رہا ہے لیکن اب بھٹو خاندان کی قبروں پر ایک خوب صورت مزار تعمیر ہو چکا ہے۔ یہ سائبان قبروں کو موسموں کی شدت سے بچاتا ہے۔ اس سائبان کی بھی ایک کہانی ہے۔
بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا حتمی فیصلہ ہو چکا تھا، نصرت بھٹو اور بے نظیر کو آخری ملاقات کے لیے بلایا گیا۔ یہ ایک عجیب ملاقات تھی جہاں کال کوٹھڑی کا دروازہ بند رہا، صرف سلاخوں کے آر پار باتیں ہوئیں۔ بھٹو صاحب نے اپنی بیٹی کو حوصلہ دیا اور کہا ’آج رات پھانسی کے بعد میں آزاد ہو جاؤں گا۔ میں اپنے پُرکھوں کی سر زمین لاڑکانہ چلا جاؤں گا اور وہاں کی دھرتی، خوشبوؤں اور ہواؤں کا حصہ بن جاؤں گا اور وہاں کی دیو مالائی داستانوں کے کرداروں میں شامل ہو جاؤں گا۔‘
یہ کہہ کر بھٹو صاحب رکے اور کہنے لگے ’لاڑکانہ میں تو آج کل بہت گرمی ہو گی۔‘ بے نظیر کو آنے والی خوف ناک حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا۔ انہوں نے آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز میں وعدہ کیا، ’پاپا میں آپ کی قبر پر سائے کے لیے سائبان بناؤں گی۔‘ بیٹی نے والد سے کیا ہوا وعدہ خوب نبھایا۔
اس مزار کے قریب ایک سکول ہے۔ یہ چھٹی کا دن ہے۔ سکول کے لان میں دو چارپائیاں اور کچھ کرسیاں رکھی ہیں۔ میں بھی ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ میں یہاں پہلی بار آیا ہوں، میرے علاوہ اس گاؤں کے کچھ لوگ اور کچھ اہل سخن بیٹھے ہیں۔ انہی لوگوں میں موجود گڑھی خدا بخش کے شاعر منظور علی منگی نے بتایا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت ان کی عمر 70 سال تھی۔ انہیں وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔
وہ بھٹو صاحب کے جنازے میں بھی شریک ہوا تھا۔ اس نے دوسرے لوگوں کے ہمراہ بھٹو صاحب کا چہرہ دیکھا تھا۔ اسے اب تک یاد ہے ان کے چہرے پر زردی تھی اور اسے یوں لگا تھا جیسے ان کا جسم سکڑ گیا ہو۔ بھٹو صاحب نے پھانسی سے 10 روز پہلے احتجاجاً کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔
جسم کی لاغری کا یہ عالم تھا کہ کال کوٹھری سے پھانسی گھاٹ تک چل کر جانا محال ہو گیا۔ اس لیے انہیں سٹریچر پر ڈال کر پھانسی گھاٹ لے جایا گیا۔
ایک کال کوٹھڑی جس کا سائز 7x10فٹ تھا بھٹو کی کل کائنات تھی۔ آخری 10 روز کال کوٹھڑی میں چارپائی بھی نہیں تھی۔ فرش پر گدا ہی ان کا بچھونا تھا۔ زندگی میں بھی کیسے اتار چڑھاؤ آتے ہیں، اس تنگ وتاریک کوٹھڑی کا مکین وہی شخص تھا جس کے خاندان کی وسیع جاگیریں تھیں۔
کہتے ہیں چارلس نیپئر، جس نے 1843 میں سندھ کو فتح کیا تھا، سندھ کے دورے پر تھا اور وقفے وقفے سے اپنے ہمراہوں سے پوچھتا تھا یہ زمینیں کس کی ہیں؟ ہر بار اسے جواب ملتا تھا بھٹو خاندان کی۔
تنگ آ کر اس نے کہا میں سونے لگا ہوں، جب بھٹو خاندان کی زمینیں ختم ہوں تو مجھے جگا دینا۔ کچھ دیر سونے کے بعد وہ جاگا اور پوچھا کہ یہ زمینیں کس کی ہیں تو اسے جواب ملا، بھٹو خاندان کی۔ اور اب دنیا کی وسعتیں سمٹ کر 7x10فٹ کی کال کوٹھڑی تک محدود ہو گئی تھیں۔
ہم سکول کے لان سے اٹھ کر پیدل مزار کی طرف چل دیتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ درد کے رشتے سے بندھے مزار کی طرف آرہے ہیں۔ ہم صدر دروازے میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتارتے ہیں اور مزار کی وسیع عمارت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مزار کے اندر گلاب کے پھولوں کی مہک بسی ہے۔
بھٹوصاحب کی لحد پرگلاب کے پھولوں کی سرخ پتیاں نچھاور کی جا رہی ہیں۔ مجھے بھٹو صاحب کا آبائی گھر المرتضیٰ یاد آ گیا، جس کے وسیع لان میں تاحد نظرگلاب کے پھولوں کے تختے تھے۔ گلاب کی بےشمار اقسام یہاں موجود تھیں۔ بھٹوصاحب جب کسی دورے پر جاتے تو واپسی پرگلاب کی ایک نئی قسم لے کرآتے۔
ان کا پسندیدہ پھول نیلے رنگ کا گلاب تھا۔ بہار کے موسم میں المرتضیٰ بہار کے رنگوں اور خوشبوں سے بھر جاتا۔ خوشبوؤں میں انہیں شالیمار کلون پسند تھا۔ پھانسی سے ایک روز پہلے اپنی آخری ملاقات میں بھٹو صاحب نے ساری کتابیں، رسالے اور سگار کا پیکٹ بے نظیر کے حوالے کر دیے۔ صرف ایک سگار اور شالیمار کلون اپنے پاس رکھ لیا۔
صبح ہونے میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھے۔ جیل کی کال کوٹھری میں تنہا بیٹھے بھٹوصاحب کی آنکھوں میں بیتے ہوئے دنوں کے عکس روشن ہونے لگے۔ المرتضیٰ کا وسیع وعریض گھر جہاں بھٹو پانچ جنوری، 1928 کو پیدا ہوئے، نو سال کی عمر تک انہیں کسی سکول نہ بھیجا گیا۔ سکول کا آغاز ممبئی میں کیتھڈرل سکول سے ہوا۔ بھٹو کو یاد آیا کیسے قائد اعظم محمد علی جناح مسلم نوجوانوں کے ہیرو بن گئے تھے۔
یہی اپریل کا مہینہ تھا اور 1943 کا سال جب نوجوان بھٹو نے اپنے قائد کو خط لکھا جس میں قائد اعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد لکھا کہ میں سکول میں زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے ارضِ پاک کے حصول کے لیے اتنا موثرکردارادا نہیں کر سکتا لیکن ایک وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قر بان کر دوں گا۔ نوجوان بھٹو کے لیے وہ دن حیرت اورفخر کا تھا جب اس کے محبوب قائد نے اس کے خط کا جواب دیا تھا۔
کال کوٹھڑی میں انہیں وہ دن بھی یاد آئے جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ کی برکلے یونیورسٹی اور پھر انگلستان کی آکسفورڈ یونیورسٹی گئے۔ انہیں 1951 کا سال یاد آیا جب ان کی شادی نصرت بھٹو سے ہوئی جو سیاسی سفر میں ان کی رفیق رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1957 میں وہ پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ جانے والے وفد کے کم عمر ترین رکن تھے اور پھر 20 دسمبر، 1971 کا دن جب یحییٰ خان سے اقتدار بھٹو صاحب کو منتقل ہوا۔ بھٹو صاحب کو وہ شاداب لمحے یاد آئے جب مشکل حالات میں انہیں کامیابیاں ملیں۔ بھارت سے 90 ہزار قیدیوں کی پاکستان واپسی، 1973 کا متفقہ آئین، ایٹمی پروگرام کا آغاز، اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اور پھر قتل کا عدالتی مقدمہ اور فیصلہ۔
یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک انتہائی غیرخوش کن باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ پرانے دنوں کو یاد کرتے کرتے بھٹو صاحب کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور وہ پھر فرش پہ بچھے گدے پر دراز ہو گئے۔
اگلی صبح سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظربند بے نظیر بھٹو کے دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا تو سامنے جیل کا ایک کارندہ کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بھٹو صاحب کے وہ کپڑے تھے جوانہوں نے آخری بار پہنے تھے۔ بیٹی کوصورت حال سمجھ آ گئی۔
انہوں نے اپنے والد کے کپڑوں کو سینے سے لگا کر بھینچ لیا۔ کپڑوں سے شالیمار کلون کی وہی مانوس خوشبو آرہی تھی۔ جیل کے کارندے نے بتایا کہ تدفین گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ہوگی جس میں آپ شرکت نہیں کر سکتیں۔
ملک بھر میں میں ایک سکتے کا عالم تھا۔ مصاجبین شاہ اس سکتے کو سکون سے تعبیر کر رہے تھے۔ افتخار عارف نے اس سکون کی خبر لندن میں سنی اور اگلے روز بی بی سی اردو میں اپنی نظم سنائی:
’مصاجبینِ شاہ مطمئن ہوئے کہ سرفراز سربریدہ بازوؤں سمیت شہرکی فصیل پرلٹک رہے ہیں اور ہر طرف سکون ہے۔
سکون ہی سکون ہے
فغانِ خلق اہل طائفہ کی نذر ہو گئی
متاعِ صبر وحشتِ دعا کی نذر ہو گئی
امیدِ اجربے یقینی جزا کی نذر ہو گئی
نہ اعتبارِ حرف ہے نہ آبروئے خون ہے
سکون ہی سکون ہے‘
کسے معلوم تھا یہ سکون دراصل ایک گہرا سناٹا ہے جو حد سے بڑھتا ہے تو کہرام میں بدل جاتا ہے۔