امریکی شہر نیویارک میں 1970 کی دہائی میں جنم لینے والی ہپ ہاپ ریپ موسیقی اب سندھی نوجوانوں میں بھی مقبول ہوتی جا رہی ہے۔
کراچی کے شہید ذوالفقارعلی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (زیبیسٹ) کے طالب علم کُمیل بخاری کے مطابق بہت سے سندھی نوجوان ریپ موسیقی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
کُمیل بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دیگر موسیقی سے ریپ تھوڑا منفرد ہوتا ہے۔ جس میں 90 فیصد پیغام ہوتا ہے اس لیے موسیقی کی یہ قسم جہاں دنیا بھر کے نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہے وہیں سندھ کے نوجوان بھی ہپ ہاپ ریپ موسیقی میں بھرپور دلچسپی لے رہے ہیں۔‘
اکیس سالہ کُمیل بخاری کا تعلق سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر سے ہے۔
انھوں چھ، سات سال پہلے ریپ گانا شروع کیا۔ آغاز میں وہ قریبی دوستوں کو سناتے تھے مگر بعد میں وہ ایک پروفیشنل ریپر بن کر ابھرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’شروع میں چند دوستوں کے سامنے گاتا تھا پھر کسی فنکشن میں دوستوں نے سٹیج پر جانے کا کہا تو میں نے انکار کیا، دوستوں اصرار کرتے ہوئے سٹیج پر چڑھا دیا جس کا مجھے بھرپور مثبت ردعمل ملا تو میں نے باضابطہ ریپ کا سوچا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’گذشتہ ایک سال میں میرے نو گانے ریلیز ہوچکے ہیں۔ جن میں اکثریت سندھی زبان کے گانوں کی ہے۔‘
حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر سندھی زبان میں ایک ریپ خاصہ مقبول ہوا جو کرونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہی پر مبنی تھا۔
’دیگر زبانوں کے نسبت سندھی زبان بہت ہی امیر زبان ہے جس میں زبان کی روانی کے ساتھ الفاظ کا ایک تنوع ہے جو کہ نوجواںوں کو بھاتا ہے اور مجھے سندھ کے نوجوانوں نے بھر پور ردعمل دیا ہے‘
کئی نوجوانوں نے کمیل بخاری سے سوشل میڈیا پر رابطہ کیا اور اب وہ ان سے ریپ سیکھ رہے ہیں۔
کمیل بخاری کا مکمل ریپ سانگ دیکھنے کے لیے ہمارے یوٹیوب چینل پر آئیں: