پشاور میں بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی ) منصوبہ پچھلے چند دنوں سے ایک مرتبہ پھر زیر بحث ہے، جس کی وجہ اس کی تعمیر شدہ سڑک پر جگہ جگہ دوبارہ توڑ پھوڑ کرکے اس میں تبدیلیاں لانا بتایا جارہا ہے۔
شہریوں نے اس توڑ پھوڑ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کردیا ہے جس کی وجہ سے اس منصوبے پر ایک بار پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔
بی آرٹی منصوبے پر، جس کی 2018 سے لے کر 2020 تک تکمیل کی کئی ڈیڈ لائنز آ کر گزر چکی ہیں، دوبارہ کام شروع کر دیا گیا جو گذشتہ ماہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک نئی ویڈیو میں بس منصوبے کی سڑک پر ایک جگہ دیواروں کو دونوں جانب سے توڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے جس سے لگتا ہے کہ منصوبے میں تبدیلیاں کرکے غلطیاں درست کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی وجہ سے یہ منصوبہ ماضی میں بھی شدید تنقید کا نشانہ بنا۔ تاہم صوبائی حکومت اور منصوبے کی باگ ڈور سنبھالنے والوں نے ہر بار اس کا مختلف دلائل سے دفاع کیا۔ رواں سال مارچ میں سپریم کورٹ میں ایک سماعت کے دوران جب اس منصوبے کی تعمیر شدہ سڑک کو توڑ کر تبدیلیوں کے حوالے سے ایک جج نے سوال کیا کہ کیا یہ صحیح ہے کہ سڑک کے بعض مقامات پر بسیں ایک دوسرے کوباآسانی کراس نہیں کر سکتیں اور اس وجہ سے منصوبے میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں؟ تو جواب میں پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے نمائندے نے کہا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں اور بسیں بغیر کسی مشکل کے ایک دوسرے کو کراس کر رہی ہیں۔
نئی توڑ پھوڑ پر تنقید کا شور اٹھا تو بعض لوگوں نے یہ خیال بھی ظاہرکیا کہ ہو سکتا ہے یہ ویڈیو پرانی ہو لیکن جب انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل ظفر علی شاہ سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ سچ ہے کہ ایک بیرئیر کو توڑا گیا ہے، لیکن یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ، جس کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
'سوشل میڈیا پر شیئر کیا جانے والی ویڈیو حیات آباد فیز فائیو کی ایک جگہ کی ہے جہاں نہایت معمولی سا کام تھا۔ ایک دیوار کو صرف چھ انچ پیچھے کرنا تھا۔خدانخواستہ کوئی ایسی بڑی غلطی نہیں ہوئی جس کو اس انداز میں سوشل میڈیا پر پیش کیا جارہا ہے کہ جیسے ہم کوئی پل توڑ رہے ہیں۔'
انہوں نے مزید بتایا: 'ڈرائیور حضرات کو ایک جگہ پر تھوڑی سی مشکل پیش آرہی تھی، اس لیے ہم نے سوچا کہ دیوار کو چند انچ پیچھے لے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
'بعد میں مسئلہ ہونے سے بہتر ہے کہ ابھی تمام نقائص دور کرکے عوام کو بہترین اور آرام دہ سروس فراہم کی جائے۔'
ظفر علی شاہ نے کہا کہ لوگ یہ خیال کر رہے ہیں کہ شاید منصوبہ آپریشنل ہونے میں تاخیر ہو جائے گی لیکن منصوبے پر کام تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔
'ہمارا تعمیراتی کام تقریباً مکمل ہے۔ آپ سٹیشنز پر دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں آلات نصب کیے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی روڈ کے پاس مین ڈرین کا جو مسئلہ آرہا تھا اس کو حل کر دیا گیا ہے، بسیں تیار ہیں،کوریڈورز کے اندر ہمارا کام مکمل ہو چکا ہے۔'
بی آر ٹی کا منصوبہ تین بنیادی وجوہات کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے جن میں اس منصوبے کی اصل لاگت، تکمیل کی کوئی حتمی ڈیڈلائن نہ ہونا اور کرپشن کے الزامات شامل ہیں۔
منصوبے کی اصل لاگت کے بارے میں سابق صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزی مختلف انٹرویو ز میں کہہ چکے ہیں کہ اس کی لاگت 32ارب روپے ہے جب کہ خود اس پراجیکٹ کے خالق اور خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے مطابق اس پر 66 ارب روپے لگیں گے۔
اسی طرح اس منصوبے کی تکمیل کے حوالے سے بھی کئی ڈیڈلائنز دی جا چکی ہیں۔ 2018 کے انتخابات سے پہلے پروزیز خٹک نے اس کو چھ ماہ میں مکمل کروانے کا دعوی کیا تھا، حالانکہ بی آر ٹی فیزبیلٹی رپورٹ کے مطابق اس پراجیکٹ نے2021 میں مکمل ہونا تھا۔
صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصا ف حکومت کے انہی دعوؤں کی وجہ سے یہ منصوبہ تنقید کا شکار ہے جس کا اپوزیشن نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔