شام کے دارالحکومت دمشق کی جامع مسجد امیہ کے اندر چھ موذن ایک لاؤڈ سپیکر پر اجتماعی اذان دے رہے ہیں، جو شہر کے قدیم محلوں میں سنی جا سکتی ہے۔
وہ ان 25 موذنوں میں سے ہیں جو اس صدیوں پرانی مسجد میں منفرد اجتماعی اذان کی روایت قائم رکھے ہوئے ہیں۔
مسجد کے ایک موذن محمد علی الشیخ کا کہنا ہے: 'میرے والد یہاں پر موذن تھے۔ ان کی وفات اس وقت ہوئی جب میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ دوسرے موذنوں نے مجھ سے کہا کہ تمہاری آواز بہت اچھی ہے، چلو کوشش کر کے دیکھو۔'
انہوں نے کہا کہ ایک موذن کی آواز خوبصورت، شیریں اور بلند ہونا چاہیے، اس کے بعد وہ مزید سیکھ سکتا ہے اور کارکردگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد علی الشیخ نے مسجد کے فن تعمیر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: 'اس کے تین مینار ہیں۔ ایک مینار کو مغربی مینار کہتے ہیں، دوسرے مشرقی مینار کو عیسیٰ کا مینار بھی کہتے ہیں اور ایک مرکزی العروس مینار ہے۔
امیہ مسجد میں موذنوں کے اس گروپ کے ایک اور رکن ابو انس نے کہا: 'میرے والد بھی یہاں موذن تھے اور ان سے پہلے میرے دادا اور ان کے والد بھی یہاں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں کہ ہماری پانچ نسلیں یہاں اذان دیتی آئی ہیں لیکن شاید اس کی تاریخ اس سے بھی زیادہ پرانی ہو۔
'مقامی باشندے اذان کا سُر سن کر جان لیتے ہیں کہ یہ کون سا دن ہے۔ روایتی عربی سُر میں مختلف مقام کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے دنوں کی شناخت کی جا سکتی ہے۔'
امیہ مسجد کے ایک اور موذن محمد الصغیر نے، جو اپنا ایک کاروبار بھی چلاتے ہیں، کہا کہ ان کے گاہک اذان کے دوران ان کا نتظار کرتے ہیں۔
'میں اذان کے وقت اپنے گاہکوں سے معذرت طلب کر لیتا ہوں۔ بہت سارے گاہک آتے ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں مجھے معاف کرنا لیکن مجھے اذان کے لیے جانا ہے، یہ عبادت کا وقت ہے اور بہت سے لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے مسیحی گاہک بھی مجھے دعا کے لیے کہتے ہیں۔'
انہوں نے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں کہا: 'جہاں تک ریٹائرمنٹ کی بات ہے خدا سے ملاقات (اذان) میں کوئی ریٹائرمنٹ نہیں۔ میں اپنے کاروبار سے اکتا جاتا ہوں، ایمان داری سے بتاؤں تو میں کام سے بور ہو گیا ہوں لیکن عبادت مسلسل تجدید کا نام ہے، جس میں کبھی بوریت یا تھکن نہیں ہو سکتی۔'