پاکستان میں گاڑیوں کے تین بڑے برانڈز میں سے ایک ٹویوٹا نے اندرون ملک تیار ہونے والی اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں گذشتہ ہفتے کے دوران اضافے کا اعلان کیا ہے جبکہ سوزوکی اور ہنڈا بھی آئندہ چند روز میں ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں۔
ٹویوٹا نے جن گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے ان میں کم از کم تین قسم کی کاروں کے علاوہ بڑی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
ملک بھر میں ٹویوٹا کے ڈیلرز کو بھیجی گئی نئی ریٹ لسٹ کے مطابق فی گاڑی کی قیمت میں ایک لاکھ 20 ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک کا اضافہ ہوا ہے۔
یہ کیسا فیصلہ ہے؟
کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی معاشی اور کاروباری سرگرمیاں تقریباً بند ہیں۔
ملک میں اس مہلک وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مارچ میں آخری دنوں میں شروع ہونے والا لاک ڈاؤن تاحال جاری ہے، جس کی وجہ سے گاڑیاں بنانے والے کارخانوں سمیت تقریبا تمام صنعتیں بند پڑی ہیں۔
ایسی صورت حال میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی اطلاع اکثر لوگوں کے لیے حیران کن بلکہ مضحکہ خیز ثابت ہو رہی ہے۔
راولپنڈی کے ایک شہری محمد صالح نے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کا سن کر کہا: 'میں نے اپنی گاڑی ایک مہینے سے باہر نہیں نکالی۔ ایسے میں کوئی نئی گاڑی کیوں اور کس لیے خریدے گا۔ اوپر سے انہوں نے عجیب کام کیا کہ قیمتیں بھی بڑھا دیں۔'
اسلام آباد میں گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے محمد عامر نے بتایا کہ مارچ سے کراچی بند ہے تو ہم بھی بند ہیں۔ کوئی کاروبار نہیں ہوا۔ ایسے میں قیمتوں میں اضافہ سمجھ نہیں آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا جو گاڑیاں پہلے سے بُک ہیں وہ ان کے پاس کھڑی ہیں اور وہ بھی خریدار لے جانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھا رہے۔
محمد عامر نے، جو دارالحکومت میں ٹویوٹا کی ورک شاپ بھی چلاتے ہیں، کہا کہ انہوں نے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ابھی ورک شاپ کھولی ہے۔
'ابھی ہمارے پاس روزانہ 10 سے 12 گاڑیاں مرمت وغیرہ کے لیے آرہی ہیں جبکہ کرونا وبا اور لاک ڈاؤن سے پہلے یہ اوسط 100 سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔'
گاڑیوں کی قیمتیں کیوں بڑھتی ہیں؟
پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے ایگزیکٹیو ممبر جہانزیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تعلق حکومتی ٹیکسوں اور غیر ملکی کرنسی کے ریٹ کے اتار چڑھاؤ سے ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں کوئی نیا ٹیکس تو نہیں لگایا گیا لیکن ڈالر کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 'ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹویوٹا گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔'
انہوں نے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی دوسری ممکنہ وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ کمپنیاں صنعت بند ہونے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا بھی حساب کتاب رکھتی ہیں اور حالیہ اضافے کی یہ ایک وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق حکومتِ پاکستان کو گاڑیوں کی صنعت سے سالانہ 50 ارب روپے ٹیکس کی مد میں حاصل ہوتے ہیں۔
کیا یہ ایک چال ہے؟
عام پاکستانی شہری کے لیے کمپنیوں کا گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے سے متعلق فیصلہ یقیناً عجیب ہے۔
ایسی صورت حال میں جب پورا ملک کرونا وائرس کی وبا سے جنگ میں مصروف ہے تو گاڑی جیسی لگژری کی قیمت بڑھانے کے پیچھے کیا منطق ہو سکتی ہے؟ یہ واقعتاً ایک حقیقی سوال ہے۔
تاہم جو لوگ کار سازی کی صنعت سے وابستہ ہیں وہ اس سوال کا جواب اور اس کے پیچھے موجود حکمت کو بخوبی جانتے ہیں۔
گذشتہ 35 سال سے آٹوموبیلز انڈسٹری سے وابستہ عبدالمجید شیخ ایسی معاشی بدحالی کی صورت حال میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے موجود منطق کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں: دراصل یہ اضافہ صرف کاغذوں پر کیا گیا ہے۔ اس کا اطلاق صرف نئی بننے والی گاڑیوں پر ہو گا، جو آئندہ کچھ مہینوں تک ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو گاڑیاں شو رومز میں موجود ہیں وہ پرانی قیمتوں پر ہی دستیاب ہیں۔ اس لیے اس وقت گاڑی کے خریداروں کو اضافی قیمت ادا نہیں کرنا پڑے گی۔
عبدالمجید شیخ نے مزید کہا کہ ایسی صورت حال میں قیمتوں کا اضافہ ایک کاروباری چال ہو سکتی ہے، جس کا مقصد ممکنہ خریداروں کو گاڑیاں خریدنے کا لالچ دینا ہے۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: جو لوگ گاڑی خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور موجودہ صورت حال کے باعث ایسا کرنے سے گریز کر رہے ہیں تو قیمتوں میں اضافہ انہیں اس خریداری پر مجبور کر سکتا ہے۔
کون نہیں چاہے گا کہ آئندہ چند ماہ میں مہنگی خریدنے کی بجائے ابھی سستی گاڑی خرید لی جائے۔ ان کے خیال میں کار ساز کمپنیاں ایسا اپنا موجود سٹاک نکالنے کے لیے کر رہی ہیں۔
یہ ترکیب کارگر ہو گی؟
اقتصادی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کے خیال میں کمپنیاں نئی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا کر موجودہ سٹاک کی فروخت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکیں گی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی صورت حال میں ہر شخص کے لیے صرف نہایت ضروری اشیا اہمیت رکھتی ہیں۔ گاڑی جیسی لگژری اشیا کا سوچنے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔
ذیشان حیدر نے مزید کہا کہ کرونا وبا کے باعث بے یقینی اپنے عروج پر ہے۔ ایسے میں لوگ نقد رقم اپنے پاس رکھنے کو زیادہ اہمیت دیں گے اور پیسے صرف ایسی چیزوں پر خرچ کریں گے جو زندگی کی ڈور کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔
کارسازی بحران کا شکار
پاما کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موجود تین ہزار سے زیادہ آٹوموٹیوز بنانے والے کارخانے سالانہ تقریباً دو لاکھ گاڑیاں اور 18 لاکھ موٹر سائیکل تیار کرتے ہیں۔
تاہم ملک میں گاڑیاں بنانے کی صنعت کرونا وبا اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن سے پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔ پاما کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2019 کے دسمبر میں گاڑیوں کی فروخت میں 38 فیصد کمی واقع ہوئی۔
اسی طرح گذشتہ سال کے آخری مہینے میں 10 ہزار گاڑیاں کم فروخت ہوئیں جبکہ دسمبر 2018 میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 16 ہزار سے زیادہ تھی۔
اسی طرح 2018 میں مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ گذشتہ سال گاڑیوں کی فروخت محض انسٹھ ہزار رہی۔
گاڑیوں کی خریدو فروخت میں کمی کی بڑی وجہ ان کی قیمتوں میں اضافہ بتایا جاتا ہے جو 2019 کے دوران حکومتی ٹیکسز کی وجہ سے کارساز کمپنیوں کو کرنا پڑا تھا۔
قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گاڑیوں کی خریدو فروخت میں گذشتہ کئی مہینوں سے کمی کے باوجود دام میں اضافے کا مقصد ممکنہ خریداروں کو لالچ دینا ہی لگتا ہے۔