میرے ایک قریبی دوست کسی مجبوری کے تحت نیشنل ہائی وے پر سفر کر رہے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا اور انہوں نے لب سڑک ایک مسجد کے پاس اپنی گاڑی روکی اور نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں داخل ہوئے۔
مسجد کا بغور جائزہ لیا تو وہاں فرش سے قالین وغیرہ ہٹائی ہوئی تھیں اور ماربل کے فرش پر چند افراد نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے اور ایک دوسرے سے کافی فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ بھی وضو کرنے کے بعد نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہو گئے اور جب سجدے میں گئے تو اچانک ان کے ذہن میں خیال آ گیا کہ جہاں وہ سجدہ دے رہے ہیں کہیں یہاں پر کرونا (کورونا) وائرس کے متاثرہ مریض نے بھی سجدہ نہ دیا ہو اور کہیں کرونا وائرس ان کے ناک اور منہ کے رستے ان کے جسم میں داخل نہ ہو جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس خیال کا آنا تھا کہ وہ نماز پڑھ کر جب اپنی گاڑی میں بیٹھے تو انہیں ہلکی ہلکی کھانسی شروع ہو گئی اور سفر کے دوران سارے راستے میں کرونا وائرس کا نفسیاتی خوف اور دہشت انہیں اپنے حصار میں لیے رہا۔ وہ اپنے گھر پہنچے تو تب جا کر ان کی کھانسی کا سلسلہ تھما۔ دوسرے روز انہوں نے گھر میں کسی کو بتائے بغیر ایک نجی ہسپتال میں کرونا وائرس کا خفیہ طور پر ٹیسٹ کروایا جو منفی نکلا اور اس کے بعد ان کی حالت بہتر ہوئی۔
ہمارا میڈیا جس طرح غیر ذمہ داری سے کرونا وائرس کا نفسیاتی خوف صبح شام خبریں اور دیگر ٹاک شو میں پھیلا رہا ہے اس کے اثرات ہر شخص پر کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں، گو کہ اس میں میڈیا کی بدنیتی شامل حال نہیں لیکن ایسے پروگرامز کے منفی اثرات کو بھی دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ ٹی وی چینلوں نے اس سلسلے میں مثبت پیش رفت کی ہے کہ وہ ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کر رہے ہیں اور ان کو اپنے پروگراموں میں مدعو کرکے عوام میں شعور بیدار کر رہے ہیں کہ ہم نے کرونا وائرس سے ڈرنا نہیں بلکہ اس کے خلاف لڑنا ہے تاہم ایسے پروگراموں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس سلسلے میں بہتر ہے کہ ماہرین نفسیات کی گائیڈ لائن کو مدنظر رکھ کر کرونا وائرس کے حوالے سے مثبت پروگرام نشر کیے جائیں جس سے خوف و ہراس کی فضا پیدا نہ ہو۔
اس بات سے تو کوئی انکاری نہیں کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات نہایت ضروری ہیں۔ آپ لاک ڈاون کریں، دیگر حفاظتی تدابیر اپنائیں مگر خدارا خوف و ہراس پھیلا کر مینڈک اور سانپ کی کہانی نہ دہرائیں، جس میں مینڈک اور سانپ کی شرط لگی، اور سانپ نے ایک آدمی کو ڈسا، مگر سامنے مینڈک آیا تو وہ ہنس کر آگے چل دیا۔ کچھ دیر کے بعد مینڈک نے کاٹا اور سامنے سانپ آیا تو آدمی کا دہشت کے مارے ہارٹ فیل ہو گیا۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ میڈیا کی طرف سے دن رات مسلسل کرونا کرونا کرتے کرتے کمزور دل اور وہمی حضرات و خواتین معمولی کھانسی زکام سے مرنے لگیں۔
میرے خیال میں ہمارے میڈیا کے ارباب اختیار کو بھی مل بیٹھ کر ایسے صحت مندانہ پروگرام ترتیب دینے چاہییں جس سے خوف و ہراس کی بجائے عوام میں کرونا وائرس کے خلاف لڑنے کا حوصلہ پیدا ہو۔
خاص طور پر اس وقت قوم جس نفسیاتی خوف کا شکار ہے اس کو دور کرنے کے لیے ماہرین نفسیات سے مدد لی جائے۔ ہمارا میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔